بدھ، 1 دسمبر، 2021

قواعد اردو-28۔ نحو

0 comments

تیسرا حصہ

  نحو

قواعد کا وہ علم جس  میں کلام، جملوں اور عبارتوں سے بحث کی جاتی ہے۔
نحو جملے میں الفاظ کی درست ترتیب اور اُنکے ربط باہمی کا علم ہے۔   
نحو میں اجزائے کلام کو ترکیب دینے اور انہیں  الگ الگ کرنے کا طریقہ بتایا جاتا ہے۔
نحو میں  اجزائے کلام کی کیفیت، جنس اور تعداد  و زمانہ میں جو تغیرات وقوع ہوتے ہیں ، ان پر بحث کی جاتی ہے۔
نحو قواعد کا وہ علم ہے جس کے ذریعے اسم ،فعل اور حرف میں تبدیلی واقع ہونے یانہ ہو نے اور اس میں تبدیلی کی نوعیت کا علم حاصل ہو،نیز کلمات کو آپس میں ملانے کا طریقہ بھی معلوم ہو۔
نحو  کا موضوع کلام ہے، نحو کے علم سے ہم زبان کو درست  بولنے اور لکھنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔
نحو کی 2 قسمیں ہیں: 1 ۔ نحو تفصیلی                    2۔ نحو ترکیبی
نحو تفصیلی:
بابائے اردو مولوی عبدالحق صاحب کے مطابق معنی و مفہوم کے لحاظ سے اجزائے کلام میں مختلف تغیرات اور کیفیات(بلحاظ جنس، تعداد، زمانہ اور حالت الگ الگ کرنے )کا  علم نحو تفصیلی کہلاتا ہے۔ تفصیل کا مطلب الگ الگ کرنا ہے۔
نحو ترکیبی: جملوں کی ترکیب یا ساخت کا علم نحو ترکیبی کہلاتا ہے۔ ترکیب کے معنی  دو یا دو سے زائد چیزوں کو آپس میں ملانا ہے۔

کلام/ مرکب:
دو یا دو سے زیادہ  با معنی الفاظ کا مجموعہ  کلام/مرکب کہلاتا ہے۔  مثلاً  پاکستان اسلامی ملک ہے۔ علی میرا بھائی ہے۔ہم لاہور میں رہتے ہیں۔ جانور چارہ کھاتے ہیں۔  میری گڑیا۔ تیز گھوڑا۔نیک آدمی۔ خوبصورت مکان۔
 
کلام کی اقسام

کلام  کی درج ذیل 2 اقسام ہیں؛
1۔ کلام تام:  الفاظ کا ایسا مجموعہ ہے جسے پڑھ /سن کر پورا مطلب سمجھ آ جائے۔  اسے جملہ  یا مرکب تام بھی کہتے ہیں۔ جیسے وہ سبق یاد کرتا ہے۔ ہم روز کھانا کھاتے ہیں۔
2۔ کلام ناقص:  وہ مجموعہ الفاظ ہے جسے پڑھ/سن کر پورا مطلب سمجھ نہ آئے۔  اسے مرکب بھی کہتے ہیں۔جیسے  دس لڑکے۔ بیمار آدمی۔  آخری چٹان۔خوبصورت تصویر۔


ترکیب یا صورت کے لحاظ سے جملے   کی اقسام:
ترکیب کے لحاظ سے جملے کی دو اقسام ہیں؛
           1۔ مفرد جملے                    2۔ مرکب جملے
مفرَد جملہ: ایسا جملہ جس میں صرف ایک فعل پایا جائے۔  ایسے جملے میں صرف ایک مُسند اور ایک مُسند الیہ ہوتا ہے۔جیسے  :اسلم نے پانی پیا۔ سلمہ اسکول جاتی ہے۔ تم کب آئے؟
مرکب جملہ:  جب دو یا دو سے زائد جملے مل کر ایک (مفردجملےکا)مفہوم ادا کرتے ہیں، تو اسے مرکب جملہ کہتے ہیں، اس میں ایک سے زیادہ فعل پائے جا سکتے ہیں۔ جیسے :  مجھے اطلاع ملتی تو میں ضرور آتا۔ تم محنت کرو گے تو کامیاب ہو گے۔ 

مرکب جملے کی اقسام
مرکب جملے کی 2 اقسام درج ذیل ہیں۔
1۔ مرکب مطلق: ایسا مرکب جملہ جس میں ہر مفرد جملہ  جدا گانہ برابر  کی حیثیت رکھتا ہے اور دوسرے جملے کا محتاج نہیں ہوتا۔ جیسے؛  علی آیا اور اسد چلا گیا۔
2۔ مرکب مُلتف: ایسے جملے جس میں  ایک جملہ مرکزی/اصلی ہوتا ہے باقی جملے  اس کےتابع ہوتے ہیں۔ جملے کا پورا مطلب کسی ایک جملے سے پورا سمجھ نہیں آتا ہے۔ جیسے؛  جو قلم گم ہو گیا تھا ، وہ مل گیا ہے۔  اس جملے میں" قلم مل گیا ہے " اصل جملہ ہے اور " جو گم ہو گیا تھا" اس کا تابع جملہ۔


کلام تام:

الفاظ کا ایسا مجموعہ ہے جسے پڑھ /سن کر پورا مطلب سمجھ آ جائے۔  اسے جملہ  یا مرکب تام بھی کہتے ہیں۔ جیسے وہ سبق یاد کرتا ہے۔ ہم روز کھانا کھاتے ہیں۔ پرندے چہچہاتے ہیں۔ سپاہی پہرہ دیتا ہے۔
کوئی بھی جملہ (مرکب تام)  دو اجزاء پر مشتمل ہوتا ہے ان اجزاء کے تعلق کو ”اسناد“ کہتے ہیں۔ جملے کے  دو اجزاء یہ ہیں؛
1۔مُسند: جملے میں جس شخص یا اسم کی بابت جو کچھ کہا جائے  اسے "مسند“ کہتے ہیں۔ جیسے اسلم پڑھتا ہے۔ علی بیمار ہے۔ ان جملوں میں ”پڑھتا ہے“ اور ”بیمار ہے“ مسند ہیں۔
2۔مُسند الیہ:جملے میں جس شخص یا اسم کی بابت کچھ کہنا  ”مُسند الیہ “ کہلاتا ہے۔  جیسے اسلم پڑھتا ہے۔ علی بیمار ہے۔ ان جملوں میں”اسلم“اور”علی“ مسند الیہ ہیں۔  

جملے کی اقسام

جملے کی اقسام درج ذیل ہیں؛

1۔ جملہ انشائیہ      2۔ جملہ خبریہ       3۔ جملہ اسمیہ       4۔ جملہ   فعلیہ
1۔ جملہ انشائیہ:جس جملے میں کوئی امر، نہی ، ندا، استفہام، شرط، تعجب، انبساط ، افسوس یا مخالفت پائی جائے ۔ جیسے کتاب نکالو!   علی کہاں ہے؟ کاش و ہ جیت جاتا! خبردار ۔ ایسے مت کرو!
2۔ جملہ خبریہ: جس جملے  میں کسی بات کی خبر دی جائے اور بولنے والے کو سچا یا جھوٹا کہہ سکیں۔ جیسے ؛اس نے سبق پڑھا۔ سلمیٰ اسکول جاتی ہے۔

3۔جملہ اسمیّہ: جس جملے میں مسند اور مسند الیہ دونوں اسم ہوں اور فعل ناقص  موجود ہو ، اسے جملہ اسمیّہ کہتے ہیں۔ جیسے علی بیمار ہے۔ وہ ایک وکیل ہے۔ جملہ اسمیہ کے مسند الیہ کو ”مبتداء“ اور مُسند کو ”خبر“ کہتے ہیں۔ جملہ اسمیہ کا مسند الیہ ہمیشہ اسم ہوتا ہے۔
جملہ اسمیہ کے اجزاء: جملہ اسمیہ کے 5 بنیادی اجزاء ہیں؛
 1۔ مبتداء           جملہ اسمیہ کا مسند الیہ(اسم)  مبتداء کہلاتا ہے۔
2۔ متعلق مبتداء   اسم سے متعلق جو الفاظ استعمال ہوں وہ متعلق مبتداء کہلاتے ہیں۔
3۔ خبر               جملہ اسمیہ کے مُسند کو خبر کہتے ہیں۔
4۔ فعل ناقص      وہ الفاظ فعل جو جملے کو مکمل کرتے ہیں ۔
جیسے؛ اسلم  کئی دن سےبیمار ہے۔ اس جملے میں اسلم مبتداء،         بیمارخبر ،  ہے فعل ناقص  اور "کئی دن سے" متعلق خبرہے۔
متعلقِ خبر:      اگر جملے میں جار اور مجرور آئے تو وہ مل کر ”متعلقِ خبر“ کہلاتا ہے۔

4۔ جملہ فعلیہ:جس  جملے میں کسی کام کا کرنا ، ہونا یا سہنا پایا جائے ۔ اس جملے میں مُسند الیہ تو اسم ہو مگر مُسند فعل ہو، وہ جملہ فعلیہ کہلاتا ہے۔ اس جملے میں فاعل، مفعول اور فعل لازم یا متعدی م موجود ہوتے ہیں۔ جیسے اسلم پڑھتا ہے۔ وہ کھانا کھاتا ہے۔ ان جملوں کے مسند الیہ کو ”فاعل“  اور مسند  کو ”فعل“ کہا جاتا ہے۔ باقی اجزا متعلق (فعل ، فاعل اور مفعول )کہلاتے ہیں۔

جملہ فعلیہ کے اجزاء:        
جملہ فعلیہ کے 6 اجزاء  درج ذیل  ہیں؛
 1۔ فاعل                  2۔  متعلق فاعل                                 3۔ مفعول          4۔ متعلق مفعول               5۔ فعل                6۔ متعلق فعل
اگر جملہ فعلیہ میں جار و مجرور آئے تو یہ مل کر "متعلقِ فعل “ کہلاتا ہے۔  اس جملے میں فعل عموماً فعل تام ہوتا ہے،۔ جیسے ؛ علی نے قلم سے خط لکھا۔  اگر فعل لازم ہو تو مفعول کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جیسے؛ وہ مسکرایا۔ وہ دوڑتا ہے۔  

بدھ، 24 نومبر، 2021

قواعد اردو - 27 جنس(تذکیر و تانیث)

0 comments

جنس (تذکیر و تانیث)
جنس  اسم کی وہ کیفیت (خاصیت) ہے جس سے اسم کے نر یا مادہ ہونے کا علم ہوتا ہے۔  اردو زبان میں جملوں کی فصاحت اور درستی کےلیے اسم کی جنس کا تعین لازم ہے۔ الفاظ یا اسماء کی تذکیر و تانیث زبان کے بول چال اور اہلِ زبان کے  استعمال پر  ہوتی ہے۔ اور قواعد بنانے والوں نے ان کے کچھ قاعدے مقرر کیے ہیں۔
  
}ہم پوسٹ نمبر -14 میں جنس کی تعریف مختصراً پڑھ چکے ہیں۔{
  کچھ قواعد درج ذیل ہیں؛
 تذکیر و تانیث (برائے انسان)
انسانوں کے لیے استعمال ہونے والے الفاظ میں تذکیر و تانیث کی تفصیل کچھ یوں ہے؛
کچھ مذکر اسموں کے مؤنث الفاظ ان  کےمذکر الفاظ سے مختلف ہوتے ہیں؛

مذکر

مؤنث

مذکر

مؤنث

مذکر

مؤنث

مذکر

مؤنث

باپ

ماں

شوہر

بیوی

صاحب

بیگم/میم

بھائی

بہن/آپا

ابا

اماں

ابو

امی

بادشاہ

ملکہ

خسر

خوش دامن

مرد

عورت

داماد

بہو

غلام

باندی

نواب

بیگم

گبھرو

مٹیار

سسر

ساس

راجہ

رانی

بھائی

بھابھی

کچھ اسم صرف مذکر بولے جاتے ہیں؛  نبی،  فرشتہ، درویش، بابا،  شہ بالا،  ہم زلف، پہلوان،  وغیرہ
کچھ اسم صرف مؤنث بولے جاتے ہیں؛ باجی، آیا، دائی، سہاگن، انّا،  سوت، سوکن، ڈائن، چڑیل، پری، طوائف، سہیلی وغیرہ
کچھ اسم مذکر اور مؤنث دونوں بولے جاتے ہیں؛یتیم، مسافر، داروغہ، غریب، مہمان، میزبان، کھلاڑی، فرزند، صدر، وزیر، ممبر، رکن، پروفیسر، جانور،   ہیجڑا، بھانڈ۔  وغیرہ
مذکر و مؤنث (برائے انسان)بنانے کے طریقے:
ان الفاظ کےمذکر و مؤنث بنانے کے کچھ قاعدے درج ذیل ہیں؛

مذکر اسموں کے آخر میں "الف" یا "ہ" ہو تو اسے یائے معروف "ی" سے بدل کر مؤنث بنا لیتے ہیں۔ بعض اوقات صرف "ی"  بڑھانے سے مؤنث بن جاتا ہے۔لڑکا سے لڑکی،  بندہ سے بندی،نانا سے نانی، چمار سے چماری،ترکھان سے  ترکھانی، نواسہ سے نواسی،  سالا سے سالی،  شہزادہ سے شہزادی، اندھا سے اندھی،پٹھان سے پٹھانی
مذکر کے آخر میں "الف"  یا "ی" کو "ن" سے بدل کر مؤنث بنا لیتے ہیں۔ بعض اوقات صرف "ن" بڑھا دیتے ہیں۔دولہا سے دلہن،گوالا سے گوالن، درزی سے درزن ، سقّہ سے سقّن، رنگریز سے رنگریزن
مذکر کے آخری حرف کو ہٹا کر یا ہٹائے بغیر "نی" یا "انی" کا اضافہ کر کے مؤنث  بنا لیتے ہیں؛استاد سے استانی،  فقیر سے فقیرنی،         نوکر  سے نوکرانی،   شیخ سے شیخانی،ڈوم سے ڈومنی،   نٹ  سے نٹنی،سیٹھ سے سیٹھانی،سید سے سیدانی،مغل سے مغلانی،دیور سے دیورانی           
عربی  اور فارسی الفاظ  کی علامت تانیث "ہ"  مذکر کے ساتھ لگا دیں تو مؤنث بن جاتے ہیں؛معلم سے معلمہ،سلطان سے سلطانہ،زوج سے زوجہ، مریض سے مریضہ،والد سے والدہ، محترم سے محترمہ،           عزیز سے عزیزہ،ملک سے ملکہ،گلوکار سے گلوکارہ،   فنکار سے فنکارہ
عربی الفاظ جو "فاعل" کے وزن پر ہیں(فاعلیت کے حامل)  ان کی مؤنث "فاعلہ" کے وزن پر آتی ہے۔حاکم سے حاکمہ،   قاتل سے قاتلہ، عالم سے عالمہ،طالب سے طالبہ،شاعر سے شاعرہ،  خادم سے خادمہ،بالغ سے بالغہ،            وارث سے وارثہ،زاہد سے زاہدہ،ناصر سے ناصرہ
ترکی الفاظ  مذکر کے آخر میں "م" لگانے سے وہ مؤنث بن جاتے ہیں؛خان سے خانم، بیگ سے بیگم
بعض اسم مؤنث سے مذکر بنا لیتے ہیں؛ بہن سے بہنوئی، خالہ سے خالو، پھوپھی سے پھوپھا، نند سے نندوئی، رانڈ سے رنڈوا ۔             وغیرہ       
حیوانات کی تذکیر و تانیث
کچھ حیوانات کے لیے مذکر و مؤنث کے الگ الگ الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ جیسے؛                       بیل اور گائے،                 مینڈھا اور بھیڑ
مذکر اسم کے آخر میں "الف" کو   " ی"یا                     "یا" سے بدل کر مؤنث بناتے ہیں۔  بعض اوقات صرف "یا"  کا اضافہ کرتے ہیں۔
کتا سے کتیا
،  گھوڑا سے گھوڑی  ، مرغا سے مرغی،چوہا سے چوہیا،بکرا سے بکری،چڑا سے چڑیا ،مکڑا سے مکڑی، بلّا سے بلّی، بندر سے بندریا
مذکر کے آخر میں "ی"، "ن"،  "نی" یا     " انی" بڑھا کر مؤنث بنا لیتے  ہیں؛ہرن سے ہرنی، مینڈک سے مینڈکی، ناگ سے ناگن، مور سے مورنی،سؤر سے سؤرنی، شیر سے شیرنی، اونٹ سے اونٹنی،کبوتر سے کبوتری،توتا(طوطا) سے توتی(طوطی)،تیتر سے تیتری
4۔ درج ذیل الفاظ صرف مؤنث بولے جاتے ہیں؛کونج،کوئل،چھپکلی، گلہری، چیل، مینا،فاختہ ،قمری            ،مکھی،بِھڑ،تتلی، چمگادڑ،جوں ، مرغابی، مچھلی،  چچھوندر
یہ الفاظ صرف مذکر بولے جاتے ہیں؛مچھر،کھٹمل،ہُدہُد،  گدھ،   اُلّو، اژدہا، کوّا، ممولا، بگلا ،  باز،کچھوا، عقاب،  جگنو، چیتا،سُرخاب،      سارس،
جنّ،بچھو،جھینگر، گرگٹ،پپیہا،نیولا
درج ذیل مذکر و مؤنث دونوں بولے جاتے ہیں؛   بلبل،    پلا،        چوزہ،     جانور ۔   وغیرہ
بے جان اسموں کی تذکیر و تانیث
بے   جان اسموں کی درست تذکیر و تانیث کیلیے درج  ذیل قاعدوں کا خیال رکھنا چاہئیے؛
جسامت کی بنیاد پر  مذکر بولے جانے والے الفاظ(عموماً اسمائے مکبّر)  کے آخر میں یائے معروف "ی" لگا کر مؤنث بنا لیتے ہیں،(یہ اسمائے مصغر ہوتے ہیں )۔   پہاڑ سے پہاڑی، تھیلا سے تھیلی، ہتھوڑا سے ہتھوڑی، ٹوکرا سے ٹوکری،            تخت سے تختی۔  وغیرہ
جن اسمائے مصغّر کے آخر میں "یا" ہو وہ مؤنث بولے جاتے ہیں؛    جیسے       پُڑیا،       چٹیا،       ڈِبیا،       کُٹیا،             لٹیا        دنیا
3۔ جن اسموں کے آخر میں "ی" ہو وہ عموماً مؤنث ہوتے ہیں،  ٹوپی،مولی،چھری،چھڑی،ٹوکری،روٹی،سیڑھی۔ وغیرہ            البتہ   موتی، گھی، پانی   اور دہی مذکر ہیں۔
جن الفاظ کے آخر میں "ہ" ہو وہ عموماً مؤنث بولے جاتے ہیں؛ راہ،نگاہ،جگہ،پناہ، چراگاہ، پناہ، خانقاہ،توبہ،توجہ،سمجھ، ٹوہ، راکھ، ساکھ وغیرہ
سہ حرفی عربی الفاظ جن کے آخر میں "الف" ہو مؤنث بولے جاتے ہیں؛   ادا   ،وفا  ،دعا، دغا، شفا،ثنا،    بقا۔ وغیرہ
تمام زبانوں کے نام مؤنث ہوتے ہیں۔  جیسے اردو،  فارسی،  عربی، انگریزی، جاپانی، چینی۔ وغیرہ
تمام نمازوں کے نام مؤنث بولے جاتے ہیں۔ فجر، ظہر، عصر، مغرب، عشاء، تہجد، اشراق، چاشت۔
تمام آوازوں کے نام مؤنث بولے جاتے ہیں۔ جیسے
ہوا کی سرسراہٹ، کوئل کی کوکو، بادلوں کی گرج، کوے کی کائیں کائیں، بکری کی میں میں۔ وغیرہ
تمام ندیوں  اور نہروں کے نام مؤنث بولے جاتے ہیں۔  جیسے ملیر ندی، کورنگی ندی، اپر جہلم نہر۔ وغیرہ
10۔ تمام براعظموں، ملکوں اور شہروں کے نام مذکر بولے جاتے ہیں(البتہ  دلی مؤنث ہے)۔  ایشیا، افریقہ، یورپ، آسٹریلیا، روس، پاکستان، چلی، برطانیہ، کراچی، لاہور، ملتان، ٹوکیو، استنبول، مکہ، مدینہ، تہران، کابل۔ وغیرہ
11۔ تمام پہاڑوں، سمندروں، اور دریاؤں کے نام مذکر بولے جاتے ہیں۔(البتہ گنگا اور جمنا دونوں مؤنث ہیں)   کوہ ہندوکش، کوہ قراقرم، کوہِ سلیمان، بحرِ ہند، بحیرہ عرب، بحرِ اوقیانوس، دریائے سندھ، دریائے نیل، فرات، دجلہ ۔ وغیرہ
12۔ تمام سیاروں کے نام مذکر بولے جاتے ہیں۔ البتہ زمین مؤنث ہے۔ مشتری، زحل، عطارد، مریخ، زہرہ۔ وغیرہ
13۔ تمام دھاتوں کے نام مذکر ہیں سوائے چاندی کے جو مؤنث بولی جاتی ہے۔ سونا، پارہ، لوہا، تانبا، پیتل۔ وغیرہ
14۔ تمام مہینوں اور دنوں کے نام مذکر ہیں البتہ جمعرات مؤنث ہے۔ جمعہ، ہفتہ، اتوار، پیر، منگل، بدھ، جنوری، مارچ، جولائی، اگست ۔ وغیرہ
15۔ تمام قیمتی پتھروں کے نام مذکر ہیں۔ جیسے لعل، زمرد، یاقوت، فیروزہ، ہیرا، پکھراج۔ وغیرہ
16۔ تمام اوقات کے نام مذکر ہوتے ہیں۔ البتہ رات، شام، صبح   اور گھڑی مؤنث بولے جاتے ہیں۔  منٹ، گھنٹہ، سیکنڈ، دن ، سال، مہینہ، سن، پہر۔وغیرہ
17۔ انگریزی الفاظ کی تذکیر و تانیث  میں مستند ادیبوں  کی پیروی کی جاتی ہے۔  جیسے بائیسکل، پارٹی، رجمنٹ، لاری، ڈیٹ، کال وغیرہ مؤنث        جبکہ ٹکٹ، اسٹول، کمیشن، فوٹو، آفس ، بل اور ڈپو وغیرہ مذکر بولے جاتے ہیں۔
نوٹ: کسی لفظ کی تذکیر و تانیث اہلِ زبان کے محاورے اور بول چال کے تابع ہوتی ہے۔ اردو میں لکھنؤ، دلی اور دکن والے تذکیر و تانیث میں اختلاف رکھتے ہیں۔ نیز کچھ الفاظ کی تذکیر و تانیث مروجہ قاعدوں سے ہٹ کر بھی ہوسکتی ہے۔اس لیےکسی بھی لفظ کی درست رہنمائی اور معلومات کے لیے مستند لغت سے رجوع کرنا لازمی ہے۔  یہاں بطور مثال دیے گئے الفاظ   کی تعداد حتمی نہیں ۔ 

پیر، 22 نومبر، 2021

قواعد اردو-26 علامت مفعول "کو"

0 comments

علامت مفعول "کو"
"کو" علامت مفعول ہے۔  "کو" متعدی افعال میں مفعول کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسے؛ سلیم نے عادل کو قلم دیا۔ سلمان نے بچے کو پڑھایا۔ ان جملوں میں "عادل اور بچہ" مفعول ہیں اور "کو" علامت مفعول ہے۔
"کو" استعمال کرتے ہوئے درج ذیل باتوں کو دھیان میں رکھنا چاہیئے؛
1
۔ جملے میں 1 مفعول ہو اور ذی عقل (جاندار)ہو تو "کو" استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسے؛ علی نے مہمان کو سلام کیا۔ فراز نے عثمان کو بلایا۔
جملے میں بے جان مفعول
کے ساتھ "کو" کا استعمال غلط ہے۔ جیسے؛ علی نے کتاب پڑھی۔ بکری پانی پیتی ہے۔ ان جملوں میں "کو" کا استعمال کیا جائے تو غلط ہو گا۔
اگر فعل مجہول میں مفعول بے جان (غیر جاندار)    ہو تو "کو" کا استعمال نہیں کیا جاتا، جیسے؛  فصل کاٹی گئی۔ عید کا چاند دیکھا گیا ہے۔
4۔ اگر فعل مجہول میں مفعول جاندار ہے تو "کو" کا استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسے؛ قیدی کو رہا کر دیا گیا۔ مہمان کو تحفے دے کر  رخصت  کیا گیا۔
اگر جملے میں مفعول جاندار ہو مگر ذی عقل نہ ہو تو بھی " کو “ استعمال نہیں ہوتا. جیسے
:سلمان نے ہرن مارا۔ اسلم نے چڑیا    ماری۔ان جملوں  میں جو مفعول استعمال ہوئے ہیں جاندار تو ہیں مگر ان میں شعور ( عقل) نہیں ہے اس لیے "کو “ کا استعمال نہیں کیا گیا ہے.
کسی جملے میں کوئی عام شخص یا  صرف لفظ آدمی مفعول ہو تو "کو" استعمال نہیں کرتے۔ جیسے؛  علی نے ایک آدمی دیکھا۔  لیکن اگر کسی آدمی یا شخص کا نام لی جائے یا کسی تمیز یا کسی صفت کا استعمال کیا جائے تو پھر "کو" ضرور استعمال کرنا چاہئیے۔ جیسے علی نے اس شخص کو بازار میں دیکھا تھا۔ میں نے عثمان کے چچا کو سلام کیا۔
جب کسی جملے میں 1 سے زیادہ مفعول ہوں تو "کو" بے جان کے ساتھ نہیں لگایا جائے گا بلکہ جاندار کے ساتھ استعمال کیا جائے گا۔ جیسے؛ علی نے فقیر کو روٹی دی۔ اس جملے میں فقیر جاندار مفعول اور روٹی بے جان مفعول ہے۔
مرکب مصدرجو محاورے میں استعمال ہوتے ہیں ان کے ساتھ "کو" کا استعمال درست نہیں۔ جیسے ؛ تارے گننا، کان کھولنا، کمر باندھنا، ہاتھ پاؤں ہلانا۔ ان جملوں کو تاروں کو گننا، کمر کو باندھنا، ہاتھ پاؤں کو ہلانا کی صورت استعمال کرنا غلط ہے۔
جملے میں مصدر کے استعمال میں علامت فاعل "نے"  کی جگہ "کو" استعمال ہوتی ہے۔مثلاً عادل نے آج واپس آنا ہے، درست جملہ یہ ہے؛ عادل کو آج واپس آنا ہے۔
10۔  "کو" بعض اوقات وقت یا دن  یا گھڑی سے مراد بھی لیا جاتا ہے۔ جیسے؛ میں بدھ کو آؤں گا۔
11۔ مصدر کے ساتھ جب  "کو" آئے تو عنقریب ہونے والے کسی فعل کو ظاہر کرتاہے۔ جیسے؛ مینہ برسنے کو ہے۔ ہم وہاں جانے کو تھے۔
12۔ بعض اوقات "کو" کسی غرض یا مقصد یا  معاوضے کو ظاہر کرتا ہے۔ جیسے؛ ہم سیر کو جائیں گے۔ میں ان کی ملاقات کو گیا تھا۔   
یہ کتاب کتنے کو دو گے ؟

13۔ ضمیر کی فاعلی اور مفعولی حالتیں معین ہیں۔ ان میں کوئی تغیر نہیں ہوتا ، جیسے؛ میں نے اسے(اس کو) دیکھا۔  ان کے ساتھ "کو" استعمال نہیں کرنا۔

نوٹ: اگرچہ "کو" عام طور پر علامت مفعول ہے لیکن بعض اوقات "سے"،" کے"اور" پر"  بھی" کو "کی بجائے علامت مفعول کے لیے  استعمال ہوتے ہیں جیسے  میں نے احمد کے تھپڑ مارا ۔ ماں نے احمد کے کاجل لگایا ۔   محمود سے کہو ۔  میں خالد سے محبت کرتا ہوں ۔  مجھ پر خفا مت ہو ۔  اس پر رحم کرو۔     اسی طرح روزمرہ میں بعض اوقات "مجھ کو" اور "اس کو" کی جگہ" میرے "اور "اس کے" استعمال ہوتے ہیں،   جیسے: اس نے میرے ہاتھ جوڑے۔  میں نے اس کے ہاتھ جوڑے ۔ بعض اوقات علامت مفعول محذوف  ہوتی ہے ۔ جیسے   وہ صبح سویرے چل دیا۔ وہ گھر گیا۔ نوکر کھانا  کھانے گیا ہے۔


بدھ، 15 جولائی، 2020

قواعد اردو-25 علامت فاعل "نے"

2 comments

حرف "نے "   علامت فاعل
نے   علامت فاعل ہے ۔  یہ ہمیشہ متعدی افعال میں فاعل کے ساتھ  استعمال کی جاتی ہے جیسے ؛۔ اسلم نے سبق پڑھا۔ علی نے کھانا کھایا۔
"نے" کا استعمال  کرتے ہوئے ان باتوں کا دھیان رکھنا ضروری ہے۔
1۔ "نے" ہمیشہ صرف متعدی افعال کے ساتھ استعمال ہو گی۔ افعال لازم میں فاعل کے ساتھ "نے" کا استعمال غلط ہے۔  جیسے ؛۔ وہ فرش پر بیٹھ گئے۔ ہم گھر واپس آ گئے۔  لازم افعال کے ساتھ نے لگانا بالکل غلط ہوتا ہے۔
2۔متعدی افعال کی صورت میں "نے" صرف فعل ماضی مطلق، ماضی قریب، ماضی بعید اور ماضی شکیہ کے جملوں میں آتا ہے۔ کسی اور زمانے(فعل) کے ساتھ "نے " نہیں آتا۔ جیسے؛۔ احمد نے کہا۔ احمد نے کہا ہو گا۔ احمد نے کہا تھا۔  جبکہ ایسے لکھنا غلط ہو گا  ۔جیسے ؛۔ احمد نے کہتا ہے۔ احمد نے کہے گا۔ احمد نے کہتا تھا۔  ان جملوں کی درست صورت یہ ہو گی۔ احمد کہتا ہے۔ احمد کہے گا۔ احمد کہتا تھا۔

 بعض متعدی افعال ایسے ہیں جن کے ساتھ "نے " استعمال نہیں ہو سکتا۔ جیسے  شرمانا، بھولنا، لانا،۔ جیسے؛۔ احمد شرمایا، شکیل سبق نہیں بھولا۔ اسلم سیب لایا۔ 
بولنا ایسا فعل متعدی ہے جس کے ساتھ "نے استعمال نہیں کیا جاتا جیسے؛۔ علی بولا۔ لیکن جب بولنے کے ساتھ کوئی مفعول موجود ہو تو        "نے " لگایا جاتا ہے۔ جیسے؛۔ سارہ نے سچ بولا۔ سرمد نے جھوٹ بولا۔
"چاہنا" کے ساتھ " نے " استعمال ہو گا ۔ جیسے؛۔ اللہ نے چاہا۔ اس نے چاہا۔  لیکن اگر چاہا کے ساتھ "دل" اور "جی" کے الفاظ آئیں تو پھر "نے" استعمال نہیں ہو گا۔ جیسے؛۔ جب دل چاہا۔ میرا جی چاہا۔
بدلنا، ہارنا، جیتنا، کھیلنا، سمجھنا، پکارنا ایسے مصدر ہیں  جو لازم اور متعدی دونوں صورت میں استعمال ہوتے ہیں۔  ان کے فعل متعدی کی صورت میں استعمال ہونے پر "نے" ان کے ساتھ لگایا جاتا ہے ۔ جیسے؛۔ ہم نے میچ جیتا۔ میں نے اسے پکارا۔ علی نے لباس بدلا۔ اسلم نے میچ کھیلا۔ جبکہ فعل لازم کی حالت میں "نے" کا استعمال نہیں ہو گا۔  جیسے؛۔ ہم جیتے۔ وہ پکارا۔ علی نہیں بدلا۔ اسلم آج کھیلا۔
7۔ جب مصدر کے ساتھ "ہے" یا  "تھا" استعمال ہوتا ہے تو فاعل مفعول کی صورت میں آتا ہے اور اس صورت میں " نے" نہیں لگایا جاتا۔ جیسے؛۔ مجھےکراچی جانا ہے۔ آپ  کوکیا لینا تھا۔ ان جملوں کی یہ صورت غلط ہو گی۔ میں نے کراچی جانا ہے۔ آپ نے کیا لینا تھا۔
مجھ اور تجھ ضمیر کی مفعولی حالتیں ہیں  اور ان کے ساتھ "نے"نہیں لگایا جاتا۔ لیکن جب ان کے ساتھ کوئی صفت لائی جائے تو پھر "نے" جملے میں لگایا جاتا ہے۔ مثلاً۔  مجھ ناچیز نے بھی ان کی زیارت کی۔ تجھ نالائق نے یہ بات کیسے کہی؟


منگل، 14 جولائی، 2020

قواعد اردو-24 امدادی/معاون افعال

2 comments

امدادی افعال/معاون افعال

  جیسا کہ  ہم پڑھ چکے ہیں کہ وہ فعل جو دوسرے فعل کے ساتھ آ کر اس کے  معنی میں تبدیلی لاتا ہو، امدادی /معاون فعل کہلاتا ہے۔ جیسے؛ ۔ علی رات کو دیر تک پڑھتا رہتا ہے۔ اس جملے میں 2 فعل پڑھنا اور رہنا آئے ہیں۔ رہنا فعل پڑھنا کا امدادی فعل ہے جو جملے میں زور پیدا کر رہا ہے۔ ایک اور مثال دیکھیں، اسلم مجھ سے نا حق لڑ پڑا۔ اس جملے میں پڑنا فعل لڑنے کا معاون فعل ہے جو جملے میں مزید فصاحت پیدا کر رہا ہے۔ امدادی افعال میں کچھ افعال ہمیشہ دوسرے افعال کے ساتھ ہی استعمال ہوتے ہیں اکیلے استعمال  نہیں ہوتے، جیسے؛ ۔  چُکنا، سکنا، لگنا وغیرہ جبکہ بعض اکیلے بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں  پر اس صورت ان کے معنی مختلف ہو جاتے ہیں۔  امدادی افعال سادہ فعل کو مرکب فعل بنا دیتے ہیں۔ عموماً  ہم درج ذیل امدادی افعال استعمال کرتے ہیں؛

چُکنا:  کسی کام کے مکمل ہونے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جیسے ؛ ۔ پڑھ چکا، جا بھی چکا۔ وہ کھانا کھا چکا۔ بارش ہو چکی۔
ہونا:  یہ فعل بہت کثرت سے بہت متفرق معنوںمیں مستعمل ہے ، اسماء  و صفات کو فعلی معنی دیتا ہے جیسے؛۔  پشیمان ہونا،۔ آباد ہونا۔ تولد ہونا۔

پڑنا: کسی فعل کے یکا یک/اچانک ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔ یا کسی مجبوری کو ظاہر کرتا ہے۔ جیسے بادل برس پڑے۔ وہ رو پڑا۔ وہ کیچڑ میں گر پڑے۔ مجبوری کی حالت میں  جیسے؛ ۔   اسے ماننا پڑا۔ ہمیں جانا پڑا۔
نکلنا: حالت سکون سے اچانک حرکت یا ہل چل کو ظاہر کرتا ہے۔ جیسے؛ ۔   پُھوٹ نکلا۔ چل نکلا۔
سَکنا: کسی کام کی قابلیت ہونے یا اجازت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جیسے؛ ۔   وہ انگریزی بول سکتا ہے۔ تم جا سکتے ہو۔  وہ امتحان دے سکتے ہیں۔
جانا: کسی فعل کی تکمیل یا تاکید کے لیے  مستعمل ہے۔ جیسے ؛ ۔  کھانا کھا جاتا ہے۔ سو جاتا ہے۔ سبق یاد کر کے سو جاؤ۔
لینا: فعل کے مکمل ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔ جیسے؛ ۔ کھا لیا۔ پڑھ لیا۔ سن لیا۔
ڈالنا: کلام میں زور پیدا کرنے کے لیے مستعمل ہے۔ جیسے؛ ۔   کاٹ ڈالا۔ مارڈالا۔

آنا: یہ بھی فعل کی تکمیل یا تاکید  کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جیسے؛ ۔  چاند ابھر آیا۔ وہ سندیسہ دے آیا۔
لگنا: کسی فعل کے شروع ہونے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جیسے؛ ۔  دوڑنے لگا۔ کھیلنے لگا۔
اُٹھنا: کسی فعل کی بے اختیاری اور تیزی کے اظہار کے لیے مستعمل ہے۔ جیسے؛ ۔   چلّا اٹھا۔ پھڑک اٹھا۔
چاہنا:  کسی ارادے یا خواہش کو ظاہر کرتا ہے۔ جیسے  ؛ ۔  وہ پڑھنا چاہتا ہے۔  وہ امریکہ منتقل ہونا چاہتا ہے۔

بلاگ

موضوعات

اردو (29) urdu (25) قواعد (23) urdu grammar (21) grammar (13) صرف (13) صرف و نحو (9) اسم (8) فاعل (5) مفعول (5) حرف (4) فعل (4) کلام (4) گرامر (4) استفہام (3) اصطلاحاتِ زبان (3) لازم (3) مرکب (3) اسم ذات (2) اسم ذات، اجزائے کلام (2) اسم صفت (2) اسم ضمیر (2) اشارہ (2) تانیث (2) تخلص (2) تذکیر (2) تلفظ (2) تمیز (2) جمع (2) جملہ (2) حرف صحیح (2) حرف علت (2) حرکت (2) ذاتی (2) صفت (2) صوت (2) عددی (2) عطف (2) علامات (2) علامت (2) علم (2) غیر معین (2) فعل ناقص (2) مؤنث (2) متعدی (2) مجہول (2) مذکر (2) معروف (2) معین (2) مفعولی (2) موصول (2) نحو (2) نکرہ (2) کلمہ (2) کیفیت (2) Consonant (1) Vowel (1) آراء (1) آغا شورش کاشمیری (1) آلہ (1) آواز (1) اجزاء (1) ادغام (1) استخباری (1) استغراقی (1) استفہامیہ (1) اسم جامد (1) اسم عدد (1) اسم مشتق (1) اسم مصدر (1) اسم مفعول (1) اسمیہ (1) اشباع (1) اصطلاحی (1) اضافی (1) اعداد (1) اعراب (1) اقتباس (1) اقراری (1) الخ (1) الفاظ (1) امالہ (1) امدادی (1) امر (1) انشائیہ (1) انکاری (1) ایجاب (1) بیان (1) بیش (1) تاسف (1) تام (1) تثنیہ (1) تخصیص (1) ترتیبی (1) ترک (1) تشبیہ (1) تشدید (1) تصغیر (1) تعجب (1) تعداد (1) تفضیل بعض (1) تفضیل نفسی (1) تفضیل کل (1) تمنائی (1) تنوین (1) تنکیری (1) توصیفی (1) تکبیر (1) جار (1) جزم (1) جمع الجمع (1) جمع سالم (1) جمع مکسر (1) جنس (1) حاشیہ (1) حاصل مصدر (1) حال (1) حالیہ (1) حالیہ معطعفہ (1) حذف (1) حروف (1) حروف تہجی (1) حصر (1) خبریہ (1) خط (1) خطاب (1) درجات صفت (1) رائے (1) ربط (1) رموز اوقاف (1) روزمرہ (1) زبر (1) زیر (1) سالم (1) ساکن (1) سکتہ (1) سکون (1) شخصی (1) شرط (1) شعر (1) شمسی (1) شکیہ (1) صفت عددی (1) صفت مقداری (1) صفتی (1) صفحہ (1) صوتی (1) صوتی نظام (1) صَوتیے (1) ضرب الامثال (1) ضرب المثل (1) ضعفی (1) ضمیری (1) ظرف (1) ظرف زمان (1) ظرف مکان (1) عرف (1) عطف بیان (1) عطفیہ (1) علامت فاعل (1) علامت مفعول (1) عَلم (1) فاعل سماعی (1) فاعل قیاسی (1) فاعلی (1) فجائیہ (1) فعلیہ (1) قسم (1) قصہ (1) قمری (1) لغوی (1) لفظ (1) لقب (1) ماضی (1) متحرک (1) مترادف (1) مثبت (1) مجازی (1) مجروری (1) محاورہ (1) محذوف (1) مد (1) مذکر سالم (1) مرجع (1) مستقبل (1) مشار (1) مصدر (1) مصرع (1) مصغر (1) مصمتہ (1) مصوتہ (1) مضارع (1) مطلق (1) معاوضہ (1) معاون (1) معتدی المتعدی (1) معدولہ (1) معرفہ (1) معطوف (1) معطوف الیہ (1) معطوفہ (1) معنی (1) مفاجات (1) مفرد (1) مقداری (1) مقصورہ (1) ممدوہ (1) منفی (1) موصوف (1) موقوف (1) مونث (1) مکبر (1) مکسر (1) مہمل (1) ندا (1) ندبہ (1) نسبتی (1) نقطہ (1) نہی (1) واحد (1) وقف کامل (1) وقفہ (1) پسند (1) پیش (1) کسری (1) کمی (1) کنیت (1) کو (1) کہاوت (1) گنتی (1) ہجا (1)
محمد عامر. تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *