Pages

اتوار، 29 نومبر، 2015

قواعد اردو-14

اسم استفہام کی اقسام
اسم استفہام کی 3 اقسام یہ ہیں؛
1۔ استفہام اقراری: جہاں سوال کا اقراری جواب جملے ہی میں موجود ہو۔ جیسے یہ اسکی بیوقوفی نہیں تو اور کیا ہے؟ یہ میری نادانی کی وجہ تھی، ان جملوں میں "بیوقوفی اور نادانی" استفہام اقراری ہیں۔
2۔ استفہام استخباری: نا معلوم کے بارے میں سوال استفہام استخباری کہلاتا ہے۔ مثلاًتمھاری مٹھی میں کیا ہے؟ آخر وہ کون تھا؟ یہاں "کیا اور کون" استفہام استخباری ہیں۔
3۔ استفہام انکاری: جب جملے میں کسی بات سے انکار کیا جائے۔ مثلاً میں نے یوں کب کہا تھا؟  یہاں "کب" انکار کے معنوں میں استفہام انکاری ہے۔
اسم فاعل کی اقسام
اسم فاعل  کی اقسام درج ذیل ہیں؛
1۔ اسم فاعل قیاسی: وہ اسم فاعل جو کسی خاص  قاعدے  کے تحت بنا  ہو۔ جیسے لکھنے والا۔ گانے والا۔ رونے والی۔ کھیلنے والے وغیرہ
2۔ اسم فاعل سماعی: وہ اسم فاعل جو کسی خاص قاعدے کے بغیر بنا ہو۔ مثلاً پرندہ۔ مالدار۔ تیراک۔ پاسبان۔  محسن۔ خدمت گار۔ ڈاکیا۔ سپیرا وغیرہ
3۔ اسم فاعل مفرد:وہ  اسم فاعل جو لفظ واحد کی صورت میں ہو مگر ایک سے زیادہ کے معنی دے۔ جیسے چور۔ سپاہی۔  ڈاکو وغیرہ
4۔اسم فاعل مرکب:یہ اسم فاعل ایک سے زیادہ الفاظ پر مشتمل ہوتا ہے۔  جیسے جیب کترا۔ راہ نما۔ بازی گر  وغیرہ
فاعل اور اسم فاعل کا فرق
کام کرنے والے والے کو فاعل کہتے ہیں۔ فاعل اسم مشتق نہیں ہوتا۔ فاعل کو بنایا نہیں جاتا نیز فاعل کی جگہ اسم فاعل استعمال کیا جا سکتا ہے۔  جیسے علی نے کتاب پڑھی۔ سپاہی نے رکنے کا اشارہ کیا۔ ان جملوں میں علی اور سپاہی فاعل ہیں۔
فعل کی نسبت سے کام کرنے والے کو اسم فاعل کہتے ہیں۔ اسم فاعل  مشتق ہوتا ہے اور مصدر سے بنتا ہے۔ یہ اسم مشتق ہوتا ہے اور اسم فاعل کی جگہ فاعل استعمال نہیں کیا جا سکتا۔  جیسے کھانے والا۔ پڑھنے والا۔ مارنے والا۔ سینے والا۔
اسم مفعول کی اقسام
اسم مفعول کی 2 اقسام یہ ہیں؛
1۔ اسم مفعول قیاسی: وہ اسم مفعول جوکسی مقررہ  قاعدے سے بنایا جائے۔ بنانے کا قاعدہ یہ ہے کہ ماضی مطلق کے بعد "ہوا" کا لفظ لگا دیتے ہیں۔ جیسے کھایا سے کھایا ہوا۔  سنا سے سنا ہوا۔ پڑھایا سے پڑھایا ہوا۔
2۔ اسم مفعول سماعی: وہ اسم مفعول جو کسی خاص قاعدے کے مطابق نہ بنایا گیا ہو  بلکہ اہلِ زبان کے طریقےپر استعمال ہوتا ہو۔ جیسے دُم کٹا۔ بیچارہ۔ کشتہ۔ مسکین۔ مظلوم ۔ لاڈلا ۔ دکھی وغیرہ
مفعول اور اسم مفعول کا فرق
جس پر کام کیا جائے اسے مفعول کہتے ہیں۔ مفعول اسم مشتق نہیں ہوتا۔ مفعول بنایا نہیں جاتا نیز فعل کی نسبت سے اسے مفعول کہا جاتا ہے۔ جیسے علی نے کتاب پڑھی۔ سپاہی نے مجھے رکنے کا اشارہ کیا ۔ ان جملوں میں" کتاب "اور"مجھے"  مفعول ہیں۔
اسم مفعول ہمیشہ اسم مشتق ہوتا ہے اور مصدر سے بنتا ہے یا اس کے ساتھ علامت مفعولی لگائی جاتی ہے۔ یہ مفعول کی جگہ لے سکتا ہے۔ اسم مفعول جملے کے اندر یا باہر اسم مفعول ہی رہتا ہے۔  جیسے پڑھنا سے پڑھا جانے والا۔ لکھنا سے لکھا جانے والا وغیرہ
جنس کے لحاظ سے اسم کی اقسام (تذکیر و تانیث)
          جنس کے لحاظ سے اسم کی درج ذیل اقسام ہیں؛

مذکر: ایسا اسم جو نر کے لیے بولا جائے۔ مثلاً مرد۔ باپ۔ بادشاہ۔ چڑا۔ مرغا وغیرہ

مؤنث: ایسا اسم جو مادہ کے لیے بولا جائے۔ مثلاً عورت۔ ماں۔ ملکہ۔ چڑیا۔ مرغی وغیرہ

تذکیر و تانیث حقیقی: جانداروں ناموں کے نر اور مادہ کو تذکیر و تانیث حقیقی کہتے ہیں۔ جیسے مرد۔ گھوڑا۔ ملکہ۔ شیرنی وغیرہ

تذکیر و تانیث غیر حقیقی: بے جان چیزوں میں  بولنے، لکھنے اور پڑھنے میں مذکر یا مؤنث کی تخصیص  تذکیر و تانیث غیر حقیقی کہلاتی ہے۔

 جیسے آنکھ۔ انگلی۔ پنڈلی۔ بارش وغیرہ مؤنث لکھے جاتے ہیں جبکہ گھر۔ مکان۔ درخت۔ سورج وغیرہ مذکر لکھے جاتے ہیں۔

5 تبصرے:

  1. بہت زبردست کاوش ہے. مزید جاری رکھیں.
    شکریہ

    جواب دیںحذف کریں
  2. @ناصر خان۔ بلاگ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ جناب حوصلہ افزائی کا بہت شکریہ۔ مصروفیت کی وجہ سے مزید نہیں لکھ پایا انشاءاللہ بہت جلد مزید موضوعات آپ پڑھ سکیں گے۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. میرےبھائی۔۔لفظ استخباری ھے،استنجاری نہیں

    جواب دیںحذف کریں

محترم ! اپنی رائے ضرور دیجئیے۔