جمعہ، 8 دسمبر، 2017

قواعد اردو-18

2 comments
روزمرّہ
کسی زبان کا کلام جو اہلِ زبان کے اسلوبِ بیان، طریق اظہار اور گفتگو کے مطابق ہو روزمرّہ کہلاتا ہے۔ دو یا دو سے زیادہ الفاظ کے مرکبات جو اپنے حقیقی معنوں میں اہل زبان کے طریقے پر استعمال ہوں روزمرّہ کہلاتے ہیں۔ جیسے ”دوچار“ اور ”انیس بیس“ اہل زبان بولتے ہیں اس لیے یہ روزمرّہ کہلاتے ہیں۔ اس کے بر عکس اگر ”دو پانچ“ یا ”اٹھارہ بیس“ بولا جائے تو یہ روزمرّہ نہیں کہلائے گا۔ روزمرّہ کے استعمال سے کلام فصیح ہو جاتا ہے۔ اس مثال کو لیجئیے؛ ”بشیر و سلیم کو بیس روپے نقد اور علی اور سلمان کو چار کتابیں انعام میں ملیں۔“ یہ جملہ روزمرہ  کے خلاف ہے۔ اہلِ زبان اس جملے کو یوں بولتے ہیں؛  ”بشیر اور سلیم کو بیس بیس روپے نقد اور علی اور سلمان کو چار چار کتابیں انعام میں ملیں۔“  اسی طرح ”میں روز اسکول جاتا ہوں“ روزمرّہ ہے  لیکن ”میں دن اسکول جاتا ہوں“ روزمرّہ نہیں  بلکہ مہمل ہے۔ اگرچہ دن اور روز مترادف ہیں۔

محاورہ
الفاظ کا ایسا مجموعہ جس سے لغوی معنی کی بجائے ایک قرار یافتہ(مجازی) معنی نکلتے ہوں، محاورہ کہلاتا ہے۔  محاورے میں عموماً علامت مصدر ’’ نا‘‘ لگتی ہے جیسے اپنے منہ میاں مٹھو بننا، آب آب ہونا، سبز باغ دکھانا ۔ہاتھ بٹانا۔ ہاتھ مانگنا۔ گُل کھلانا۔طومار باندھنا۔
محاورے میں تذکیر و تانیت واحد و جمع اور ماضی و حال و مستقبل کے اعتبار سے حسب ضرورت اور حسب موقع صیغہ میں تبدیلی کی جاتی ہے  نیزجملے میں محاورے کی علامت مصدر ’’ نا‘‘  اسی فعل کے مطابق بدل جاتی ہے جو اس جملے میں استعمال ہو رہا ہو۔  جیسے پانی پانی ہونا  سے پانی پانی ہو گیا، پانی پانی ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے منہ میاں مٹھو بن رہا تھا۔ وغیرہ
(محاورےسے ہمیشہ حقیقی معنی کی بجائے مجازی معنی مراد ہوتا ہے، اہل زبان تو اپنے محاورات کے مجازی معنی خوب سمجھتے ہیں، مگر غیر زبان والے کو ان کا معنی سمجھنا دشوار ہوتا ہے)
ضرب الامثال/کہاوت
ماضی کے واقعات و حالات سے اخذ کردہ وہ جملے جو خاص معنی و مطلب رکھتے ہیں اور ان چند الفاظ سے پورا واقعہ یا قصہ سمجھ میں آ جاتا ہے،  ضرب الامثال(کہاوت) کہلاتی ہیں۔ اس کے الفاظ اپنے حقیقی معنوں میں استعمال نہیں ہوتے ۔ ضرب المثل ہمیشہ جوں کی توں استعمال کی جاتی ہے۔اس میں کسی قسم کی لفظی تبدیلی نہیں کی جاسکتی-  مثلاً’’ کھسیانی بلی کھمبا نوچے‘‘ اب ہم اسے ”کھسیانا بلّا کھمبا نوچے “نہیں کر سکتے۔مثل یا کہاوت عبارت میں اپنی الگ شناخت  برقرار   رکھتی ہے۔    مثلاً ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا۔ ڈھاک کے تین پات۔ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔ ایک پنتھ دو کاج۔  ٹیڑھی کھیر، چور کی ڈاڑھی میں تنکا۔ جیسا دیس ویسا بھیس۔وغیرہ
کہاوت اہل زبان سمجھ سکتے ہیں، غیر زبان کے لیے کہاوت کا سمجھنا دشوار ہوتا ہے۔


قواعد اردو-17

8 comments
حرف
حرف:  وہ کلمہ جو نہ فعل ہو نہ اسم  اور نہ کسی مصدر سے مُشتق ہو بلکہ دو لفظوں کو آپس میں ملاتا ہو گویا الفاظ میں ربط اور تعلق پیدا کرتا ہو۔ جس سے مطلب  سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔ جیسے کا۔ کی۔ کو۔ سے ۔ میں۔نے۔ پر .وغیرہ۔
                                                                                    
یا
حروف (حرف) وہ خاص حروف(الفاظ) ہیں جو جملے کے اجزاء کو باہم ملاتے اور جملے کے مطلب کا سمجھنا آسان کرتے ہیں، ان حروف کے استعمال کےبغیر جملوں یا الفاظ کا مطلب  سمجھ نہیں آسکتا۔ جیسے کھانا میز لگا دو۔ کتاب بستہ ہے۔ میز نیچے جوتے پڑے ہیں۔ مجھے آپ مل خوشی ہوئی۔ ان جملوں میں  پر، میں، کے ، سے ، کر   لگانے سے جملے بامعنی اور آسان فہم ہو جاتے ہیں۔ کھانا میز پر لگا دو۔ کتاب بستے میں ہے۔ میز کے نیچے جوتے پڑے ہیں۔ مجھے آپ سے مل کر خوشی ہوئی۔  پر، میں، کے ، سے ، کر حروف  کہلاتے ہیں ۔
حروف کی درج ذیل اقسام ہیں؛
1۔ حروفِ ربط: یہ حروف ایک  لفظ(اسم) کا تعلق دوسرے لفظ(فاعل یا مفعول ) سے ظاہر کرتے ہیں۔  جیسے  کا، کی، کو، نے ۔سے
 اسلم کو کھانا دے دو۔ وہ علی کی کتاب ہے۔ بابر نے علی کو سلام کیا۔  ان جملوں میں ”کو، کی اور نے“ حروف ربط ہیں۔
حروف ربط کی 4 معروف صورتیں یہ ہیں؛
1۔ حالت فاعلی:  ”نے“  فاعل کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔  جیسے علی نے پانی پیا۔ اکبر نے کتاب پڑھی۔ (نے کا استعمال صرف  فعل ماضی میں ہوتا ہے۔)
2۔ حالتِ مفعولی: ”کو“ مفعول کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔  جیسے  نوکر کو بلاؤ۔ علی کو کتاب دو۔ (بعض اوقات کو کی جگہ ”کے“ کا حرف استعمال ہوتا ہے۔ جیسے ماں نے بچے کے کاجل لگایا۔)
3۔حالتِ اضافی: ”کا، کی، کے“ دو اسموں کے تعلق کو ظاہر کرتے ہیں۔  جیسے علی کی کتاب، آپ کا کمرہ، درخت کی جڑ۔ (ان کا استعمال فعل سے ماوراء ہوتا ہے۔)
4۔ حالتِ طوری: ”سے“   اسم  کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔ جیسے   آپ کہاں سے آئے؟    تم علی سے بات کر لو۔ وہ مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟  وہ کل سے بیمار ہے۔ (بعض اوقات بطور علامت مفعول بھی استعمال ہوتا ہے)
2۔ حروفِ جار: وہ حرف جو کسی اسم کو فعل سے ملاتے ہوں۔ جیسے کھانا میز پر لگا دو۔ کتاب بستے میں ہے۔ ان جملوں میں "پر" اور "میں" حروف جار ہیں۔ (کا۔ کی ۔ کے۔ کو۔ پر ۔ سے۔ تک۔ میں۔ تلک۔ سے۔اوپر۔ پہ۔ نیچے۔ درمیان۔ ساتھ۔ اندر۔ باہر  حروف جارہیں)
3۔حروف ِعطف: یہ حروف 2 اسموں یا جملوں کو ملانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاً کھانا کھا کر مجھے خط سنا دو۔ کتاب اور اخبار لے آؤ۔  ان جملوں میں"کر" اور "اور" حروف عطف ہیں۔ (اور۔ و۔ نیز۔ بھی۔ کر۔ پھر حروف عطف ہیں)
4۔ حروف ِشرط: یہ حروف کسی شرط کے لیے بولے جاتے ہیں۔ جیسے اگرتم  محنت کرتے تو پاس ہو جاتے۔ اس جملے میں "اگر" حرفِ شرط ہے۔ (اگر۔ گر۔ اگرچہ۔ جب۔ جب تک۔ تاوقتیکہ۔ جو ں جوں۔ جونہی حروفِ شرط ہیں)
5۔ حروف ِندا:  یہ حروف کسی کو پکارنے یا آواز دینے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔  جیسے  اجی! سنتے ہو۔  ارے یہ کیا؟ ان جملوں میں "اجی" اور "ارے" حروف ندا ہیں۔ حروف ندا کے بعد علامت ندا "!" بھی لگائی جاتی ہے۔ (ارے۔ ابے۔ او۔ یا۔ اجی حروف ندا ہیں)
6۔حروف ِنُدبہ وتاسّف : یہ حروف غم یا افسوس کے لیے بولے جاتے ہیں۔جیسے''   افسوس !آپ نے محنت نہیں کی!'  اس جملے میں" افسوس" حرف ِتاسف ہے۔ ( افسوس۔ صد افسوس۔ وائے۔ حیف۔ ہائے۔ ہائے ہائے۔ اُف۔ اُفوہ۔ حسرتا۔ وا حسرتا۔ہیہات ہیہات۔ہے ہے حروف تاسف ہیں)
7۔ حروفِ  تشبیہ و تمثیلیہ حروف ایک شے کو دوسری کی مانند بتانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ جیسے برف کی طرح سرد۔ چاند کی مانند چمکتا۔ موتی جیسے دانت۔ یہاں "طرح" ، "مانند" اور "جیسے" حروف تشبیہ ہیں۔ (مانند، مثل۔ طرح۔ سا۔ جیسا۔ جوں۔ ہو۔ بہو۔ عین بین۔ بعینہ حروف تشبیہ ہیں)
8۔حروف ِاضافت:وہ حروف جو صرف اسموں کے باہمی تعلق یا لگاؤ کو ظاہر کرتے ہیں، حروف اضافت کہلاتے ہیں۔   جیسے    اسلام کی خوبیاں۔ آسمان کا رنگ۔  ان جملوں  میں "کی" اور "کا" حروف اضافت ہیں۔
9۔ حروف ِنفی:جن حروف سے نفی یا انکار کا مطلب نکلتا ہو، حروف نفی کہلاتے ہیں۔ مثلاً حاشا و کلّا ! میں نے یہ بات نہیں کہی۔  جو مزہ دیس میں ہے وہ پردیس میں نہیں۔ یہاں ”نہیں“ اور”حاشّا و کلّا“ حروف نفی  ہیں۔ (نہ۔ نَے۔ نہیں۔ مت۔ بے۔ حاشا ک کلّا۔ حروف نفی ہیں)
10۔حروفِ فجائیہ (تحسین یا انبساط): یہ کسی اسم کی تعریف کے لیے بولے جاتے ہیں۔ مثلاً شاباش ! تم   کامیاب ہو گئے۔ سبحان اللہ! کیسی خوبصورت گائے ہے۔ ان جملوں میں " شاباش" اور "سبحان اللہ " حروف تحسین ہیں۔ (کچھ حروف انبساط یہ ہیں؛ سبحان اللہ۔ ماشاءاللہ۔ جزاک اللہ۔ اللہ اللہ۔ آہا۔ بہت خوب۔ بہت اچھا۔ مرحبا۔ آفرین۔ شاباش۔ واہ واہ)
11۔ حروف ِنفرین: یہ حروف نفرت یا ملامت کے اظہار کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ جیسے  ہزار لعنت تمھارے جھوٹ پر۔  تف ہے تمھاری مردانگی پر۔ ان جملوں میں "ہزار لعنت" اور " تف" حروف نفرین ہیں۔(تُف۔ لعنت۔ ہزار لعنت۔ پھٹکار۔ اخ تھو۔ چھی چھی)
12۔ حروف ِعلّت/تعلیل: یہ حروف جملے میں کسی وجہ یا سبب کو ظاہر کرنے والے ہوتے ہیں۔ جیسے وہ دیر سے پہنچا کیونکہ بارش ہو رہی تھی۔ اس جملے میں"کیونکہ" حرف علّت ہے۔ (کچھ حروف علّت یہ ہیں؛  چنانچہ۔ لہذا۔ بنا بریں۔ پس۔ چونکہ۔ تاکہ۔ اس لیے۔ کیونکہ )
13۔ حرفِ بیان: وہ حرف جو کسی وضاحت کے لیے استعمال ہو۔ جیسے  باپ نے بیٹے سے کہا کہ سبق سناؤ۔   احمد یعنی تمھارا  نوکر وہاں موجود تھا۔ یہاں ”کہ“  اور ”یعنی“ حرف بیان ہیں۔
14۔حروف ِتردید: وہ حروف جو دو باتوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کے موقع پر بولے جائیں، حروف تردید   کہلاتے ہیں۔جیسے  غریب ہو یا امیر۔ اچھا ہو کہ برا۔ خواہ یہ لو خواہ وہ لو۔ چاہے رہیں چاہے چلے جائیں۔ ان جملوں    میں ”یا، کہ، خواہ“  اور ”چاہے“ حروف تردید ہیں۔
15۔حروف ِاضراب:ایک بات کو ترقی دیکر اعلیٰ کو ادنیٰ یا ادنیٰ کو اعلیٰ  بنا لینے کے موقع پر جو حرف دو جملوں  میں استعمال ہوتا ہے اسے حرف اضراب کہتے ہیں۔  کبھی  صفات میں ترقی دینے کے لیے  بھی استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً  وہ انسان  نہیں  بلکہ گدھا ہے۔  یہاں ”بلکہ“  حرف اضراب ہے۔
16۔ حروف ِاستدراک: وہ حروف جو دو جملوں میں سے کسی ایک میں بیان کیے گئے   کسی شبہ کو دور کرنے کے لیے  دوسرے جملے میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ جیسے انور ذہین تو بہت ہے مگر محنتی نہیں۔ میں نے  اسے دیکھا تو نہیں ہاں نام ضرور سنا ہے۔ وہ خود نہیں آئے گی البتہ اپنے بھائی کو بھیج دے گی۔ یہاں ”مگر، ہاں“اور ”البتہ“حروف استدراک ہیں۔       (مگر۔ ہاں۔ البتہ۔ پر۔ سو۔ الّا۔ وَلَے۔ لیکن۔حروف استدراک ہیں)
17۔ حروفِ استثنا: جو حروف ایک چیز کو دوسری سے جدا کریں۔مثلاً اس کے سوا کس سے فریاد کریں؟ بجز اللہ ہمارا کون ہے؟   ان مثالوں میں ”بجز “اور ”سوا“ حروف استثنا ہیں۔ (جز۔ بجز۔ سوا۔ ما سوا۔ پھر۔ الا۔ مگر ۔حروف استثنا ہیں)
18۔ حروفِ استفہام: یہ حروف کوئی سوال پوچھنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔  جیسے وہ کہاں جا رہا ہے؟     کیا تم بیمار ہو؟ ان جملوں میں "کہاں" اور "کیا" حروف استفہام ہیں۔ علامت استفہام "؟" جملے کے آخر میں استعمال کی جاتی ہے۔
(مشہور حروف استفہام یہ ہیں؛ 
کیا۔ کب۔ کیوں۔ کہاں۔ کون۔ کس۔ کیسا۔ کتنا۔ کیونکہ۔ کاہے۔ آیا)
19۔ حروفِ حصر و خصوصیت:جو حروف کسی اسم یا  فعل کے ساتھ آ کر ایک قسم کی خصوصیت پیدا کر دیں، حروف حصر  و خصوصیت  کہلاتے ہیں۔  مثلاً دنیا محض دھوکہ ہے۔ میں اکیلا کیا کر سکتا ہوں؟ خالی باتوں سے کچھ نہیں ہوتا۔ ان مثالوں میں ”محض، اکیلا“ اور”خالی“ حروف خصوصیت ہیں۔(ہی۔ تنہا۔ محض۔ فقط۔ اکیلا۔ ہمی۔ تمہی۔ خالی ۔حروفِ خصوصیت ہیں)۔یہ حروفِ تخصیص بھی کہلاتے ہیں۔
20۔ حروفِ قسَم: وہ حروف جو قسم کھانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں، حروف قسم کہلاتے ہیں۔ جیسے بخدا میں نے اسے نہیں مارا! واللہ یہی سچ ہے۔ ان جملوں میں ”بخدا“ کی ”ب“ اور واللہ کا ”و“ حروفِ قسم ہیں۔
21۔حروفِ تاکید: وہ حروف جن سے کلام میں زور پیدا ہوتا ہے۔ مثلاً  آپ کی یہ خبر بالکل غلط ہے۔ مجھے مطلقاً آپ پر اعتبار نہیں۔ زنہار کسی سے اُدھار نہ مانگنا۔ ان مثالوں میں ”بالکل۔ مطلقاً“ اور ”زنہار“ حروف تاکید ہیں۔ (ضرور۔بالضرور۔ ہرگز۔ کبھی۔ زنہار۔ مطلقاً۔ سراسر۔ سبھی۔ کُل۔ سربسر۔ قطعاً۔ اصلاً۔ بعینہٖ۔ کُلہم۔ سب کے سب۔تمام ۔حروفِ تاکید ہیں)
22۔حروف ِتنبیہہ: وہ حروف جو خبردار کرنے اور ڈرانے کے لیے استعمال کیے جائیں، حروفِ تنبیہہ کہلاتے ہیں۔  مثلاً  خبردار!آئیندہ ایسی حرکت مت کرنا۔ ہیں! یہ تم نے کیا کر دیا۔ دیکھنا!کہیں چوٹ نہ لگ جائے۔ ان جملوں میں”خبردار۔ہیں“ اور ”دیکھنا“ حروف تنبیہہ ہیں۔ (خبردار۔ زنہار۔ دیکھنا۔ دیکھو تو۔ سنو تو۔ ہیں۔ ہیں ہیں۔ ہوں۔ حروفِ تنبیہہ ہیں)
23۔حروفِ ایجاب:کسی پُکار کے جواب یا اقرار کے لیے جو حروف بولے جاتےہیں ،حروف ِ ایجاب کہلاتے ہیں۔(ہاں۔ جی ہاں۔ جی۔ اچھا۔ بہت اچھا۔ ٹھیک۔ واقعی۔ بجا۔ درست۔ بہتر ۔حروفِ ایجاب ہیں)
24۔حروفِ ظرفیت: یہ حروف جو مقامِ ظرفیت(جگہ، مقام،وقت) کے لیے بولے جاتے ہیں۔ (یہاں۔ وہاں۔ جہاں۔ کہاں۔ واں۔ یاں۔ اِدھر۔ اُدھر۔ جدھر۔ کدھر۔ اب۔ جب۔ کب۔ تب۔ ابھی۔ جبھی۔ کبھی۔ اس جگہ۔ کس جگہ۔ اس وقت۔ کس وقت۔ حروفِ ظرفیت ہیں)
25۔حروفِ تعجب/استعجاب:یہ حروف تعجب کے موقع پر بولے جاتے ہیں۔ (اللہ اللہ۔ سبحان اللہ۔ العظمت لللہ۔ اللہ اکبر۔ لا حول و لا قوۃ۔ حاشّا و کلّا۔ او ہو۔ حروفِ تعجب ہیں)
26: حروفِ مفاجات:یہ حروف کسی امر کے نا گہاں وقوع پر بولے جاتے ہیں۔جیسے اچانک آگ بھڑک اٹھی۔ دفعتاً گاڑی الٹ گئی۔            (ناگاہ۔ نا گہاں۔ اچانک۔ دفعتاً۔ یک بیک۔ یکایک۔ اتفاقاً۔ یکبارگی۔ حروفِ مفاجات ہیں)
27۔حروفِ(کلمات)خلاصهٔ کلام: وہ حروف جن سے  کلام کا خلاصہ بیان کیا جا رہا ہو۔ (غرض۔ الغرض۔ القصّہ۔ قصّہ کوتاہ۔ قصّہ مختصر۔ حروف خلاصهٔ کلام ہیں)



بدھ، 6 دسمبر، 2017

قواعد اردو-16

3 comments

تمیز

 کسی اسم، فعل یا جملے سے شک یا ابہام دور کرنے والے الفاظ تمیز کہلاتے ہیں۔ فعل یا صفت کی کیفیت بیان کرنے کے لیے تمیز کا استعمال کیا جاتا ہے۔ تمیز کے استعمال سے فعل یا صفت کے معنوں میں کمی یا بیشی واقع ہوتی ہے۔
 اسکی اقسام یہ ہیں؛
1۔ تمیزبرائے زماں: وقت یا زمانے کے لیے یہ الفاظ تمیز کا کام دیتے ہیں۔ اب، جب، کب، آگے، پیچھے، پہلے، آج، پرسوں، کل، تڑکے، ترنت، سدا، سویرے، پھر، ہمیشہ، جلد، جلدی، یکا یک، اچانک، ناگاہ، بعد، بعد ازاں اور شب و روز وغیرہ
 2۔تمیز برائے مکاں: جگہ یا مقام کے لیے یہ الفاظ تمیز کا کام دیتے ہیں۔ یہاں، وہاں، جہاں، تہاں، کہاں، آگے، پیچھے، پرے، ورے، پاس، اوپر، نیچے، بھیتر، باہر ، اندر وغیرہ تمیز مکانی کے لیے استعمال ہوتےہیں۔
3۔تمیزبرائے سمت: سمت کے لیے یہ الفاظ تمیز کا کام دیتے ہیں۔ اِدھر، اُدھر، جِدھر، تدھر، کدھر
4۔ تمیز برائےطور و طریقہ: یہ تمیز برتاؤ یا طریقے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ یوں، جوں، کیوں، کیوں کر، کیسے، ٹھیک، اچانک، دھیرے، ہولے، لگاتار، برابر، تابڑ توڑ، سچ مچ، جھوٹ موٹ، تھوڑا، جھٹ پٹ، بہت، ذرا، تخمیناً، تقریباً، خصوصاً، زیادہ، بالکل، مطلق، بعینہ، بجنسہ، ہر چند، سوا، حسبہ، یعنی، من و عن، باہم، فوراً، دفعتاً، یکا یک، فی الفور، القصہ، الغرض، فی الجملہ وغیرہ
 5۔تمیز برائےتعداد: تمیز تعدادکے لیے یہ الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ ایک بار، دو بار، اکژ، ایک ایک، دو دو، اتنا، کتنا، جتنا وغیرہ
6۔ تمیزبرائے ایجاب و انکار: کسی فعل یا صفت کے اقرار یا انکار کے لیے یہ الفاظ تمیز کا کام دیتے ہیں۔ ہاں ، جی، ہاں جی، جی ہاں، نہیں، تو، شاید، غالباً، یقیناً، بیشک، بلا شبہ، ہرگز، زنہار، بارے، البتہ، فی الحقیقت، در حقیقت۔
7۔ تمیز مرکب: بعض اوقات دو تمیز مل کر ایک تمیز کا کام دیتی ہیں۔ جیسے کب تک، جب کبھی، جہاں کہیں، جہاں جہاں، کہیں نہ کہیں، کبھی نہ کبھی، ادھر ادھر، اندر باہر، جب جب، کہیں کہیں۔
 8۔ تمیز سبب و علّت: وجہ یا سبب کے اظہار کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ اس لئے، اس طرح، چنانچہ، کیونکہ، لہٰذا۔
 9۔تمیز بطور جزو جملہ: بعض اوقات ایک ایک یا دو دو الفاظ ملکر بطور جزو جملہ کے تمیز کا کام دیتے ہیں۔ جیسے رفتہ رفتہ، خوشی خوشی، ایک ایک، روز روز، آئے دن، گھڑی گھڑی، ہونہو، دھوم دھام، آس پاس، جم جم، اطراف و جوانب، نت نت، کیوں نہیں، الگ الگ، صبح و شام، آہستہ آہستہ، جوں جوں، جوں توں۔ کما حقّہ، حتی الامکان، کما ینبغی، من و عن، حتی المقدور، حاصل کلام، طوعاً و کرہاً، آخر الامر وغیرہ۔
10۔تمیز بزریعہ ”سے اور تک“: کبھی تمیز یا اسم کے بعد ”سے' تک' میں“ وغیرہ آنے سے تمیز بن جاتی ہے۔ جیسے کب تک، بھولے سے، پھرتی سے، اتنے میں، فارسی کی (ب) لگانے سے بخوشی، بخوبی، بدل و جان۔ وغیرہ
11۔ تمیز بذریعہ”وار“:کچھ اسم ”وار“ کے ساتھ مل کر تمیز کے معنی دیتے ہیں۔ تفصیل وار، ہفتہ وار، ماہوار، نمبر وار وغیرہ
12۔تمیز بذریعہ صفت: بعض الفاظ صفات بھی تمیز کا کام دیتے ہیں۔ مثلاً خوب، ٹھیک، بجا، درست وغیرہ
13۔تمیز برائے کثرت: ”ہزار“ اور ”لاکھ“ کثرت کے معنوں میں تمیز کا کام دیتے ہیں۔ جیسے میرے لاکھ سمجھانے پر بھی وہ باز نہ آیا۔ اس نے ہزار سر مارا پر ان پر کوئی اثر نہ ہوا۔
 14۔تمیز بذریعہ اسمائے عام: کبھی اسمائے عام بھی تمیز کے معنوں میں آتے ہیں۔ جیسے بھوکوں مرتا ہے۔ جھوٹوں بھی نہ پوچھا۔ انگلوں بڑھتا ہے۔ بانسوں اچھلتا ہے۔ گھٹنوں چلتا ہے۔ (یہ سب الفاظ  حالت جمع میں  استعمال ہوتے ہیں)
15۔تمیز بذریعہ حالیہ معطوفہ: کبھی کبھی حالیہ معطوفہ بھی تمیز کا کام دیتے ہیں۔ جیسے کھلکھلا کر ہنسا۔ بلبلا کر رویا۔

جمعرات، 17 اگست، 2017

آغا شورش کاشمیری مرحوم کی کتاب "فنِ خطابت" سے انتخاب

0 comments
آغا شورش کاشمیری مرحوم کی کتاب "فنِ خطابت" سے چند سطور پیش خدمت ہیں۔
اردو الفاظ کا درست استعمال۔جانوروں کے بچے کو ہم بچہ ہی کہتے ہیں مثلا بکری کا بچہ، اُلّو کا بچہ، بلی کا بچہ  لیکن اردو میں ان  کے لیے جُدا جُدا لفظ ہیں۔ مثلاً بکری کا بچہ میمنا؛ بھیڑ کا بچہ برّہ، ہاتھی کا بچہ پٹھا، اُلّو کا بچہ پٹھا، بلی کا بچہ بلونگڑا، بچھیرا گھوڑی کا بچہ، کٹڑا بھینس کا بچہ، چوزا مرغی کا بچہ، ہرنوٹا ہرن کا بچہ، سنپولا سانپ کا بچہ،گھٹیا سور کا بچہ۔
 اسی طرح بعض جانداروں اور غیر جانداروں کی بھیڑ کے لئے خاص الفاظ مقرر ہیں جو اسم جمع کی حیثیت رکھتے ہیں؛ مثلاً طلباء کی جماعت، پرندوں کا غول، بھیڑوں کا گلہ، بکریوں کا ریوڑ، گؤوں کا چونا، مکھیوں کا جھلڑ، تاروں کا جھرمٹ یا جھومڑ، آدمیوں کی بھیڑ، جہازوں کا بیڑا، ہاتھیوں کی ڈار، کبوتروں کی ٹکڑی، بانسوں کا جنگل، درختوں کا جھنڈ، اناروں کا کنج، بدمعاشوں کی ٹولی، سواروں کا دستہ، انگور کا گچھا، کیلوں کی گہل، ریشم کا لچھا، مزدوروں کا جتھا، فوج کا پڑّا، روٹیوں کی ٹھپی، لکڑیوں کا گٹھا، کاغذوں کی گڈی، خطوں کا طومار، بالوں کا گچھا، پانوں کی ڈھولی، کلابتوں کی کنجی۔
اردو کی عظمت کا اندازہ اس سے کیجئے کہ ہر جانور کی صوت  کے لئے علیحدہ لفظ ہے۔ مثلاً شیر دھاڑتا ہے، ہاتھی چنگھاڑتا ہے، گھوڑا ہنہناتا ہے، گدھا ہیچوں ہیچوں کرتا ہے، کتا بھونکتا ہے، بلّی میاؤں کرتی ہے، گائے رانبھتی ہے، سانڈ ڈکارتا ہے، بکری ممیاتی ہے، کوئل کوکتی ہے، چڑیا چوں چوں کرتی ہے، کوا کائیں کائیں کرتا ہے، کبوتر غٹر غوں کرتا ہے، مکھی بھنبھناتی ہے، مرغی ککڑاتی ہے، اُلّو ہُوکتا ہے، مور چنگھارتا ہے، طوطا رٹ لگاتا ہے، مرغا ککڑوں کوں ککڑوں کوں کرتا ہے، پرندے چہچہاتے ہیں، اونٹ بِلبِلاتا ہے، سانپ پھنکارتا ہے، گلہری چٹ چٹاتی ہے، مینڈک ٹرّاتا ہے، جھینگر جھنگارتا ہے، بندر گھگھیاتا ہے۔
کئی چیزوں کی آوازوں کے لئے مختلف الفاظ ہیں مثلاً بادل کی گرج، بجلی کی کڑک، ہوا کی سنسناہٹ، توپ کی دنا دن، صراحی کی گٹ گٹ، گھوڑے کی ٹاپ، روپیوں کی کھنک، ریل کی گھڑ گھڑ، گوّیوں کی تا تا ری ری، طبلے کی تھاپ، طنبورے کی آس، گھڑی کی ٹک ٹک، چھکڑے کی چوں اور چکّی کی گُھمر۔
ان اشیاء  کی خصوصیت کے لئے ان الفاظ پر غور کیجئے۔ موتی کی آب، کندن کی دمک، ہیرے کی ڈلک، چاندنی کی چمک، گھنگرو کی جُھن جُھن، دھوپ کا تڑاکا، بُو کی بھبک، عطر کی لپٹ، پھول کی مہک۔
مسکن کے متعلق مختلف الفاظ جیسے بارات کا محل، بیگموں کا حرم، رانیوں کا رنواس، پولیس کی بارک، رشی کا آشرم، صوفی کا حجرہ، فقیر کا تکیہ یا کٹیا، بھلے مانس کا گھر، غریب کا جھونپڑا، بِھڑوں کا چھتا، لومڑی کی بِھٹ، پرندوں کا گھونسلہ، چوہے کا بِل، سانپ کی بانبی، فوج کی چھاؤنی، مویشی کا کھڑک، گھوڑے کا تھان
۔
آغا شورش کاشمیری مرحوم 

بلاگ

موضوعات

اردو (29) urdu (25) قواعد (23) urdu grammar (21) grammar (13) صرف (13) صرف و نحو (9) اسم (8) فاعل (5) مفعول (5) حرف (4) فعل (4) کلام (4) گرامر (4) استفہام (3) اصطلاحاتِ زبان (3) لازم (3) مرکب (3) اسم ذات (2) اسم ذات، اجزائے کلام (2) اسم صفت (2) اسم ضمیر (2) اشارہ (2) تانیث (2) تخلص (2) تذکیر (2) تلفظ (2) تمیز (2) جمع (2) جملہ (2) حرف صحیح (2) حرف علت (2) حرکت (2) ذاتی (2) صفت (2) صوت (2) عددی (2) عطف (2) علامات (2) علامت (2) علم (2) غیر معین (2) فعل ناقص (2) مؤنث (2) متعدی (2) مجہول (2) مذکر (2) معروف (2) معین (2) مفعولی (2) موصول (2) نحو (2) نکرہ (2) کلمہ (2) کیفیت (2) Consonant (1) Vowel (1) آراء (1) آغا شورش کاشمیری (1) آلہ (1) آواز (1) اجزاء (1) ادغام (1) استخباری (1) استغراقی (1) استفہامیہ (1) اسم جامد (1) اسم عدد (1) اسم مشتق (1) اسم مصدر (1) اسم مفعول (1) اسمیہ (1) اشباع (1) اصطلاحی (1) اضافی (1) اعداد (1) اعراب (1) اقتباس (1) اقراری (1) الخ (1) الفاظ (1) امالہ (1) امدادی (1) امر (1) انشائیہ (1) انکاری (1) ایجاب (1) بیان (1) بیش (1) تاسف (1) تام (1) تثنیہ (1) تخصیص (1) ترتیبی (1) ترک (1) تشبیہ (1) تشدید (1) تصغیر (1) تعجب (1) تعداد (1) تفضیل بعض (1) تفضیل نفسی (1) تفضیل کل (1) تمنائی (1) تنوین (1) تنکیری (1) توصیفی (1) تکبیر (1) جار (1) جزم (1) جمع الجمع (1) جمع سالم (1) جمع مکسر (1) جنس (1) حاشیہ (1) حاصل مصدر (1) حال (1) حالیہ (1) حالیہ معطعفہ (1) حذف (1) حروف (1) حروف تہجی (1) حصر (1) خبریہ (1) خط (1) خطاب (1) درجات صفت (1) رائے (1) ربط (1) رموز اوقاف (1) روزمرہ (1) زبر (1) زیر (1) سالم (1) ساکن (1) سکتہ (1) سکون (1) شخصی (1) شرط (1) شعر (1) شمسی (1) شکیہ (1) صفت عددی (1) صفت مقداری (1) صفتی (1) صفحہ (1) صوتی (1) صوتی نظام (1) صَوتیے (1) ضرب الامثال (1) ضرب المثل (1) ضعفی (1) ضمیری (1) ظرف (1) ظرف زمان (1) ظرف مکان (1) عرف (1) عطف بیان (1) عطفیہ (1) علامت فاعل (1) علامت مفعول (1) عَلم (1) فاعل سماعی (1) فاعل قیاسی (1) فاعلی (1) فجائیہ (1) فعلیہ (1) قسم (1) قصہ (1) قمری (1) لغوی (1) لفظ (1) لقب (1) ماضی (1) متحرک (1) مترادف (1) مثبت (1) مجازی (1) مجروری (1) محاورہ (1) محذوف (1) مد (1) مذکر سالم (1) مرجع (1) مستقبل (1) مشار (1) مصدر (1) مصرع (1) مصغر (1) مصمتہ (1) مصوتہ (1) مضارع (1) مطلق (1) معاوضہ (1) معاون (1) معتدی المتعدی (1) معدولہ (1) معرفہ (1) معطوف (1) معطوف الیہ (1) معطوفہ (1) معنی (1) مفاجات (1) مفرد (1) مقداری (1) مقصورہ (1) ممدوہ (1) منفی (1) موصوف (1) موقوف (1) مونث (1) مکبر (1) مکسر (1) مہمل (1) ندا (1) ندبہ (1) نسبتی (1) نقطہ (1) نہی (1) واحد (1) وقف کامل (1) وقفہ (1) پسند (1) پیش (1) کسری (1) کمی (1) کنیت (1) کو (1) کہاوت (1) گنتی (1) ہجا (1)
محمد عامر. تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *