بدھ، 24 نومبر، 2021

قواعد اردو - 27 جنس(تذکیر و تانیث)

0 comments

جنس (تذکیر و تانیث)
جنس  اسم کی وہ کیفیت (خاصیت) ہے جس سے اسم کے نر یا مادہ ہونے کا علم ہوتا ہے۔  اردو زبان میں جملوں کی فصاحت اور درستی کےلیے اسم کی جنس کا تعین لازم ہے۔ الفاظ یا اسماء کی تذکیر و تانیث زبان کے بول چال اور اہلِ زبان کے  استعمال پر  ہوتی ہے۔ اور قواعد بنانے والوں نے ان کے کچھ قاعدے مقرر کیے ہیں۔
  
}ہم پوسٹ نمبر -14 میں جنس کی تعریف مختصراً پڑھ چکے ہیں۔{
  کچھ قواعد درج ذیل ہیں؛
 تذکیر و تانیث (برائے انسان)
انسانوں کے لیے استعمال ہونے والے الفاظ میں تذکیر و تانیث کی تفصیل کچھ یوں ہے؛
کچھ مذکر اسموں کے مؤنث الفاظ ان  کےمذکر الفاظ سے مختلف ہوتے ہیں؛

مذکر

مؤنث

مذکر

مؤنث

مذکر

مؤنث

مذکر

مؤنث

باپ

ماں

شوہر

بیوی

صاحب

بیگم/میم

بھائی

بہن/آپا

ابا

اماں

ابو

امی

بادشاہ

ملکہ

خسر

خوش دامن

مرد

عورت

داماد

بہو

غلام

باندی

نواب

بیگم

گبھرو

مٹیار

سسر

ساس

راجہ

رانی

بھائی

بھابھی

کچھ اسم صرف مذکر بولے جاتے ہیں؛  نبی،  فرشتہ، درویش، بابا،  شہ بالا،  ہم زلف، پہلوان،  وغیرہ
کچھ اسم صرف مؤنث بولے جاتے ہیں؛ باجی، آیا، دائی، سہاگن، انّا،  سوت، سوکن، ڈائن، چڑیل، پری، طوائف، سہیلی وغیرہ
کچھ اسم مذکر اور مؤنث دونوں بولے جاتے ہیں؛یتیم، مسافر، داروغہ، غریب، مہمان، میزبان، کھلاڑی، فرزند، صدر، وزیر، ممبر، رکن، پروفیسر، جانور،   ہیجڑا، بھانڈ۔  وغیرہ
مذکر و مؤنث (برائے انسان)بنانے کے طریقے:
ان الفاظ کےمذکر و مؤنث بنانے کے کچھ قاعدے درج ذیل ہیں؛

مذکر اسموں کے آخر میں "الف" یا "ہ" ہو تو اسے یائے معروف "ی" سے بدل کر مؤنث بنا لیتے ہیں۔ بعض اوقات صرف "ی"  بڑھانے سے مؤنث بن جاتا ہے۔لڑکا سے لڑکی،  بندہ سے بندی،نانا سے نانی، چمار سے چماری،ترکھان سے  ترکھانی، نواسہ سے نواسی،  سالا سے سالی،  شہزادہ سے شہزادی، اندھا سے اندھی،پٹھان سے پٹھانی
مذکر کے آخر میں "الف"  یا "ی" کو "ن" سے بدل کر مؤنث بنا لیتے ہیں۔ بعض اوقات صرف "ن" بڑھا دیتے ہیں۔دولہا سے دلہن،گوالا سے گوالن، درزی سے درزن ، سقّہ سے سقّن، رنگریز سے رنگریزن
مذکر کے آخری حرف کو ہٹا کر یا ہٹائے بغیر "نی" یا "انی" کا اضافہ کر کے مؤنث  بنا لیتے ہیں؛استاد سے استانی،  فقیر سے فقیرنی،         نوکر  سے نوکرانی،   شیخ سے شیخانی،ڈوم سے ڈومنی،   نٹ  سے نٹنی،سیٹھ سے سیٹھانی،سید سے سیدانی،مغل سے مغلانی،دیور سے دیورانی           
عربی  اور فارسی الفاظ  کی علامت تانیث "ہ"  مذکر کے ساتھ لگا دیں تو مؤنث بن جاتے ہیں؛معلم سے معلمہ،سلطان سے سلطانہ،زوج سے زوجہ، مریض سے مریضہ،والد سے والدہ، محترم سے محترمہ،           عزیز سے عزیزہ،ملک سے ملکہ،گلوکار سے گلوکارہ،   فنکار سے فنکارہ
عربی الفاظ جو "فاعل" کے وزن پر ہیں(فاعلیت کے حامل)  ان کی مؤنث "فاعلہ" کے وزن پر آتی ہے۔حاکم سے حاکمہ،   قاتل سے قاتلہ، عالم سے عالمہ،طالب سے طالبہ،شاعر سے شاعرہ،  خادم سے خادمہ،بالغ سے بالغہ،            وارث سے وارثہ،زاہد سے زاہدہ،ناصر سے ناصرہ
ترکی الفاظ  مذکر کے آخر میں "م" لگانے سے وہ مؤنث بن جاتے ہیں؛خان سے خانم، بیگ سے بیگم
بعض اسم مؤنث سے مذکر بنا لیتے ہیں؛ بہن سے بہنوئی، خالہ سے خالو، پھوپھی سے پھوپھا، نند سے نندوئی، رانڈ سے رنڈوا ۔             وغیرہ       
حیوانات کی تذکیر و تانیث
کچھ حیوانات کے لیے مذکر و مؤنث کے الگ الگ الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ جیسے؛                       بیل اور گائے،                 مینڈھا اور بھیڑ
مذکر اسم کے آخر میں "الف" کو   " ی"یا                     "یا" سے بدل کر مؤنث بناتے ہیں۔  بعض اوقات صرف "یا"  کا اضافہ کرتے ہیں۔
کتا سے کتیا
،  گھوڑا سے گھوڑی  ، مرغا سے مرغی،چوہا سے چوہیا،بکرا سے بکری،چڑا سے چڑیا ،مکڑا سے مکڑی، بلّا سے بلّی، بندر سے بندریا
مذکر کے آخر میں "ی"، "ن"،  "نی" یا     " انی" بڑھا کر مؤنث بنا لیتے  ہیں؛ہرن سے ہرنی، مینڈک سے مینڈکی، ناگ سے ناگن، مور سے مورنی،سؤر سے سؤرنی، شیر سے شیرنی، اونٹ سے اونٹنی،کبوتر سے کبوتری،توتا(طوطا) سے توتی(طوطی)،تیتر سے تیتری
4۔ درج ذیل الفاظ صرف مؤنث بولے جاتے ہیں؛کونج،کوئل،چھپکلی، گلہری، چیل، مینا،فاختہ ،قمری            ،مکھی،بِھڑ،تتلی، چمگادڑ،جوں ، مرغابی، مچھلی،  چچھوندر
یہ الفاظ صرف مذکر بولے جاتے ہیں؛مچھر،کھٹمل،ہُدہُد،  گدھ،   اُلّو، اژدہا، کوّا، ممولا، بگلا ،  باز،کچھوا، عقاب،  جگنو، چیتا،سُرخاب،      سارس،
جنّ،بچھو،جھینگر، گرگٹ،پپیہا،نیولا
درج ذیل مذکر و مؤنث دونوں بولے جاتے ہیں؛   بلبل،    پلا،        چوزہ،     جانور ۔   وغیرہ
بے جان اسموں کی تذکیر و تانیث
بے   جان اسموں کی درست تذکیر و تانیث کیلیے درج  ذیل قاعدوں کا خیال رکھنا چاہئیے؛
جسامت کی بنیاد پر  مذکر بولے جانے والے الفاظ(عموماً اسمائے مکبّر)  کے آخر میں یائے معروف "ی" لگا کر مؤنث بنا لیتے ہیں،(یہ اسمائے مصغر ہوتے ہیں )۔   پہاڑ سے پہاڑی، تھیلا سے تھیلی، ہتھوڑا سے ہتھوڑی، ٹوکرا سے ٹوکری،            تخت سے تختی۔  وغیرہ
جن اسمائے مصغّر کے آخر میں "یا" ہو وہ مؤنث بولے جاتے ہیں؛    جیسے       پُڑیا،       چٹیا،       ڈِبیا،       کُٹیا،             لٹیا        دنیا
3۔ جن اسموں کے آخر میں "ی" ہو وہ عموماً مؤنث ہوتے ہیں،  ٹوپی،مولی،چھری،چھڑی،ٹوکری،روٹی،سیڑھی۔ وغیرہ            البتہ   موتی، گھی، پانی   اور دہی مذکر ہیں۔
جن الفاظ کے آخر میں "ہ" ہو وہ عموماً مؤنث بولے جاتے ہیں؛ راہ،نگاہ،جگہ،پناہ، چراگاہ، پناہ، خانقاہ،توبہ،توجہ،سمجھ، ٹوہ، راکھ، ساکھ وغیرہ
سہ حرفی عربی الفاظ جن کے آخر میں "الف" ہو مؤنث بولے جاتے ہیں؛   ادا   ،وفا  ،دعا، دغا، شفا،ثنا،    بقا۔ وغیرہ
تمام زبانوں کے نام مؤنث ہوتے ہیں۔  جیسے اردو،  فارسی،  عربی، انگریزی، جاپانی، چینی۔ وغیرہ
تمام نمازوں کے نام مؤنث بولے جاتے ہیں۔ فجر، ظہر، عصر، مغرب، عشاء، تہجد، اشراق، چاشت۔
تمام آوازوں کے نام مؤنث بولے جاتے ہیں۔ جیسے
ہوا کی سرسراہٹ، کوئل کی کوکو، بادلوں کی گرج، کوے کی کائیں کائیں، بکری کی میں میں۔ وغیرہ
تمام ندیوں  اور نہروں کے نام مؤنث بولے جاتے ہیں۔  جیسے ملیر ندی، کورنگی ندی، اپر جہلم نہر۔ وغیرہ
10۔ تمام براعظموں، ملکوں اور شہروں کے نام مذکر بولے جاتے ہیں(البتہ  دلی مؤنث ہے)۔  ایشیا، افریقہ، یورپ، آسٹریلیا، روس، پاکستان، چلی، برطانیہ، کراچی، لاہور، ملتان، ٹوکیو، استنبول، مکہ، مدینہ، تہران، کابل۔ وغیرہ
11۔ تمام پہاڑوں، سمندروں، اور دریاؤں کے نام مذکر بولے جاتے ہیں۔(البتہ گنگا اور جمنا دونوں مؤنث ہیں)   کوہ ہندوکش، کوہ قراقرم، کوہِ سلیمان، بحرِ ہند، بحیرہ عرب، بحرِ اوقیانوس، دریائے سندھ، دریائے نیل، فرات، دجلہ ۔ وغیرہ
12۔ تمام سیاروں کے نام مذکر بولے جاتے ہیں۔ البتہ زمین مؤنث ہے۔ مشتری، زحل، عطارد، مریخ، زہرہ۔ وغیرہ
13۔ تمام دھاتوں کے نام مذکر ہیں سوائے چاندی کے جو مؤنث بولی جاتی ہے۔ سونا، پارہ، لوہا، تانبا، پیتل۔ وغیرہ
14۔ تمام مہینوں اور دنوں کے نام مذکر ہیں البتہ جمعرات مؤنث ہے۔ جمعہ، ہفتہ، اتوار، پیر، منگل، بدھ، جنوری، مارچ، جولائی، اگست ۔ وغیرہ
15۔ تمام قیمتی پتھروں کے نام مذکر ہیں۔ جیسے لعل، زمرد، یاقوت، فیروزہ، ہیرا، پکھراج۔ وغیرہ
16۔ تمام اوقات کے نام مذکر ہوتے ہیں۔ البتہ رات، شام، صبح   اور گھڑی مؤنث بولے جاتے ہیں۔  منٹ، گھنٹہ، سیکنڈ، دن ، سال، مہینہ، سن، پہر۔وغیرہ
17۔ انگریزی الفاظ کی تذکیر و تانیث  میں مستند ادیبوں  کی پیروی کی جاتی ہے۔  جیسے بائیسکل، پارٹی، رجمنٹ، لاری، ڈیٹ، کال وغیرہ مؤنث        جبکہ ٹکٹ، اسٹول، کمیشن، فوٹو، آفس ، بل اور ڈپو وغیرہ مذکر بولے جاتے ہیں۔
نوٹ: کسی لفظ کی تذکیر و تانیث اہلِ زبان کے محاورے اور بول چال کے تابع ہوتی ہے۔ اردو میں لکھنؤ، دلی اور دکن والے تذکیر و تانیث میں اختلاف رکھتے ہیں۔ نیز کچھ الفاظ کی تذکیر و تانیث مروجہ قاعدوں سے ہٹ کر بھی ہوسکتی ہے۔اس لیےکسی بھی لفظ کی درست رہنمائی اور معلومات کے لیے مستند لغت سے رجوع کرنا لازمی ہے۔  یہاں بطور مثال دیے گئے الفاظ   کی تعداد حتمی نہیں ۔ 

پیر، 22 نومبر، 2021

قواعد اردو-26 علامت مفعول "کو"

0 comments

علامت مفعول "کو"
"کو" علامت مفعول ہے۔  "کو" متعدی افعال میں مفعول کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسے؛ سلیم نے عادل کو قلم دیا۔ سلمان نے بچے کو پڑھایا۔ ان جملوں میں "عادل اور بچہ" مفعول ہیں اور "کو" علامت مفعول ہے۔
"کو" استعمال کرتے ہوئے درج ذیل باتوں کو دھیان میں رکھنا چاہیئے؛
1
۔ جملے میں 1 مفعول ہو اور ذی عقل (جاندار)ہو تو "کو" استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسے؛ علی نے مہمان کو سلام کیا۔ فراز نے عثمان کو بلایا۔
جملے میں بے جان مفعول
کے ساتھ "کو" کا استعمال غلط ہے۔ جیسے؛ علی نے کتاب پڑھی۔ بکری پانی پیتی ہے۔ ان جملوں میں "کو" کا استعمال کیا جائے تو غلط ہو گا۔
اگر فعل مجہول میں مفعول بے جان (غیر جاندار)    ہو تو "کو" کا استعمال نہیں کیا جاتا، جیسے؛  فصل کاٹی گئی۔ عید کا چاند دیکھا گیا ہے۔
4۔ اگر فعل مجہول میں مفعول جاندار ہے تو "کو" کا استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسے؛ قیدی کو رہا کر دیا گیا۔ مہمان کو تحفے دے کر  رخصت  کیا گیا۔
اگر جملے میں مفعول جاندار ہو مگر ذی عقل نہ ہو تو بھی " کو “ استعمال نہیں ہوتا. جیسے
:سلمان نے ہرن مارا۔ اسلم نے چڑیا    ماری۔ان جملوں  میں جو مفعول استعمال ہوئے ہیں جاندار تو ہیں مگر ان میں شعور ( عقل) نہیں ہے اس لیے "کو “ کا استعمال نہیں کیا گیا ہے.
کسی جملے میں کوئی عام شخص یا  صرف لفظ آدمی مفعول ہو تو "کو" استعمال نہیں کرتے۔ جیسے؛  علی نے ایک آدمی دیکھا۔  لیکن اگر کسی آدمی یا شخص کا نام لی جائے یا کسی تمیز یا کسی صفت کا استعمال کیا جائے تو پھر "کو" ضرور استعمال کرنا چاہئیے۔ جیسے علی نے اس شخص کو بازار میں دیکھا تھا۔ میں نے عثمان کے چچا کو سلام کیا۔
جب کسی جملے میں 1 سے زیادہ مفعول ہوں تو "کو" بے جان کے ساتھ نہیں لگایا جائے گا بلکہ جاندار کے ساتھ استعمال کیا جائے گا۔ جیسے؛ علی نے فقیر کو روٹی دی۔ اس جملے میں فقیر جاندار مفعول اور روٹی بے جان مفعول ہے۔
مرکب مصدرجو محاورے میں استعمال ہوتے ہیں ان کے ساتھ "کو" کا استعمال درست نہیں۔ جیسے ؛ تارے گننا، کان کھولنا، کمر باندھنا، ہاتھ پاؤں ہلانا۔ ان جملوں کو تاروں کو گننا، کمر کو باندھنا، ہاتھ پاؤں کو ہلانا کی صورت استعمال کرنا غلط ہے۔
جملے میں مصدر کے استعمال میں علامت فاعل "نے"  کی جگہ "کو" استعمال ہوتی ہے۔مثلاً عادل نے آج واپس آنا ہے، درست جملہ یہ ہے؛ عادل کو آج واپس آنا ہے۔
10۔  "کو" بعض اوقات وقت یا دن  یا گھڑی سے مراد بھی لیا جاتا ہے۔ جیسے؛ میں بدھ کو آؤں گا۔
11۔ مصدر کے ساتھ جب  "کو" آئے تو عنقریب ہونے والے کسی فعل کو ظاہر کرتاہے۔ جیسے؛ مینہ برسنے کو ہے۔ ہم وہاں جانے کو تھے۔
12۔ بعض اوقات "کو" کسی غرض یا مقصد یا  معاوضے کو ظاہر کرتا ہے۔ جیسے؛ ہم سیر کو جائیں گے۔ میں ان کی ملاقات کو گیا تھا۔   
یہ کتاب کتنے کو دو گے ؟

13۔ ضمیر کی فاعلی اور مفعولی حالتیں معین ہیں۔ ان میں کوئی تغیر نہیں ہوتا ، جیسے؛ میں نے اسے(اس کو) دیکھا۔  ان کے ساتھ "کو" استعمال نہیں کرنا۔

نوٹ: اگرچہ "کو" عام طور پر علامت مفعول ہے لیکن بعض اوقات "سے"،" کے"اور" پر"  بھی" کو "کی بجائے علامت مفعول کے لیے  استعمال ہوتے ہیں جیسے  میں نے احمد کے تھپڑ مارا ۔ ماں نے احمد کے کاجل لگایا ۔   محمود سے کہو ۔  میں خالد سے محبت کرتا ہوں ۔  مجھ پر خفا مت ہو ۔  اس پر رحم کرو۔     اسی طرح روزمرہ میں بعض اوقات "مجھ کو" اور "اس کو" کی جگہ" میرے "اور "اس کے" استعمال ہوتے ہیں،   جیسے: اس نے میرے ہاتھ جوڑے۔  میں نے اس کے ہاتھ جوڑے ۔ بعض اوقات علامت مفعول محذوف  ہوتی ہے ۔ جیسے   وہ صبح سویرے چل دیا۔ وہ گھر گیا۔ نوکر کھانا  کھانے گیا ہے۔


بلاگ

موضوعات

اردو (29) urdu (25) قواعد (23) urdu grammar (21) grammar (13) صرف (13) صرف و نحو (9) اسم (8) فاعل (5) مفعول (5) حرف (4) فعل (4) کلام (4) گرامر (4) استفہام (3) اصطلاحاتِ زبان (3) لازم (3) مرکب (3) اسم ذات (2) اسم ذات، اجزائے کلام (2) اسم صفت (2) اسم ضمیر (2) اشارہ (2) تانیث (2) تخلص (2) تذکیر (2) تلفظ (2) تمیز (2) جمع (2) جملہ (2) حرف صحیح (2) حرف علت (2) حرکت (2) ذاتی (2) صفت (2) صوت (2) عددی (2) عطف (2) علامات (2) علامت (2) علم (2) غیر معین (2) فعل ناقص (2) مؤنث (2) متعدی (2) مجہول (2) مذکر (2) معروف (2) معین (2) مفعولی (2) موصول (2) نحو (2) نکرہ (2) کلمہ (2) کیفیت (2) Consonant (1) Vowel (1) آراء (1) آغا شورش کاشمیری (1) آلہ (1) آواز (1) اجزاء (1) ادغام (1) استخباری (1) استغراقی (1) استفہامیہ (1) اسم جامد (1) اسم عدد (1) اسم مشتق (1) اسم مصدر (1) اسم مفعول (1) اسمیہ (1) اشباع (1) اصطلاحی (1) اضافی (1) اعداد (1) اعراب (1) اقتباس (1) اقراری (1) الخ (1) الفاظ (1) امالہ (1) امدادی (1) امر (1) انشائیہ (1) انکاری (1) ایجاب (1) بیان (1) بیش (1) تاسف (1) تام (1) تثنیہ (1) تخصیص (1) ترتیبی (1) ترک (1) تشبیہ (1) تشدید (1) تصغیر (1) تعجب (1) تعداد (1) تفضیل بعض (1) تفضیل نفسی (1) تفضیل کل (1) تمنائی (1) تنوین (1) تنکیری (1) توصیفی (1) تکبیر (1) جار (1) جزم (1) جمع الجمع (1) جمع سالم (1) جمع مکسر (1) جنس (1) حاشیہ (1) حاصل مصدر (1) حال (1) حالیہ (1) حالیہ معطعفہ (1) حذف (1) حروف (1) حروف تہجی (1) حصر (1) خبریہ (1) خط (1) خطاب (1) درجات صفت (1) رائے (1) ربط (1) رموز اوقاف (1) روزمرہ (1) زبر (1) زیر (1) سالم (1) ساکن (1) سکتہ (1) سکون (1) شخصی (1) شرط (1) شعر (1) شمسی (1) شکیہ (1) صفت عددی (1) صفت مقداری (1) صفتی (1) صفحہ (1) صوتی (1) صوتی نظام (1) صَوتیے (1) ضرب الامثال (1) ضرب المثل (1) ضعفی (1) ضمیری (1) ظرف (1) ظرف زمان (1) ظرف مکان (1) عرف (1) عطف بیان (1) عطفیہ (1) علامت فاعل (1) علامت مفعول (1) عَلم (1) فاعل سماعی (1) فاعل قیاسی (1) فاعلی (1) فجائیہ (1) فعلیہ (1) قسم (1) قصہ (1) قمری (1) لغوی (1) لفظ (1) لقب (1) ماضی (1) متحرک (1) مترادف (1) مثبت (1) مجازی (1) مجروری (1) محاورہ (1) محذوف (1) مد (1) مذکر سالم (1) مرجع (1) مستقبل (1) مشار (1) مصدر (1) مصرع (1) مصغر (1) مصمتہ (1) مصوتہ (1) مضارع (1) مطلق (1) معاوضہ (1) معاون (1) معتدی المتعدی (1) معدولہ (1) معرفہ (1) معطوف (1) معطوف الیہ (1) معطوفہ (1) معنی (1) مفاجات (1) مفرد (1) مقداری (1) مقصورہ (1) ممدوہ (1) منفی (1) موصوف (1) موقوف (1) مونث (1) مکبر (1) مکسر (1) مہمل (1) ندا (1) ندبہ (1) نسبتی (1) نقطہ (1) نہی (1) واحد (1) وقف کامل (1) وقفہ (1) پسند (1) پیش (1) کسری (1) کمی (1) کنیت (1) کو (1) کہاوت (1) گنتی (1) ہجا (1)
محمد عامر. تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *