پیر، 30 نومبر، 2015

قواعد اردو-15

6 comments
فعل کی اقسام(بلحاظ معنی)
معنی کے لحاظ سے فعل کی  قسمیں درج ذیل ہیں؛
1۔ فعل لازم:وہ فعل جس کا اثر فقط فاعل تک محدود ہو یا جو صرف فاعل سے پورا مطلب واضح کر دے۔ مثلاً علی آیا۔ میں گیا۔ سلمٰی مسکراتی ہے۔ وغیرہ۔
2۔فعل متعدی: وہ فعل جو فاعل کے ساتھ مفعول کا بھی محتاج ہو۔ بنا مفعول مطلب پورا سمجھ نہ آتا ہو۔ مثلاً علی انار کھاتا ہے۔ اس نے چائے پی۔ وہ اخبار پڑھیں گے۔ ہم میچ دیکھنے گئے۔ 
3۔فعل ناقص:وہ فعل جس میں کسی فعل کا صرف ”ہونا“ پایا جاتا ہے۔  یہ فعل فاعل کےبجائے مبتدا اور خبر پر مشتمل ہوتا ہے۔ مثلاً خالد چور ہے۔ میں بیمار ہوں۔ وہ خوبصورت تھی۔
4۔فعل معروف: جس فعل کا فاعل (کام کرنے والا) معلوم ہو اسے فعل معروف کہتے ہیں۔ مثلاً میں آیا۔ سلمٰی روئی۔ وہ میچ کھیلیں گے۔ وغیرہ
5۔ فعل مجہول: جس فعل کا فاعل(کام کرنے والا)  معلوم(مذکور)  نہ ہو اگرچہ مطلب سمجھ آ جائے۔ مثلاً آٹا پس گیا ہے۔ بارش ہوئی۔ کھڑکی کھولی گئی۔ وغیرہ
فعل کی اقسام(بلحاظ  زمانہ)
زمانے کے لحاظ سے اسم فعل کی 3 اقسام ہیں؛
1۔ فعل ماضی:وہ فعل جس میں کسی کام کا کرنا ، ہونا یا سہنا  گزرے زمانے میں پایا جائے۔ مثلاً     عمار نے چائے پی۔ کل بارش ہوئی تھی وغیرہ
2۔ فعل حال:وہ فعل جس میں کسی کام کا کرنا ، ہونا یا سہنا موجودہ زمانے میں پایا جائے۔مثلاً  وہ اسکول جاتا ہے۔ ہم میچ کھیل رہے ہیں۔ وغیرہ
3۔ فعل مستقبل:وہ فعل جس میں کسی کام کا کرنا ، ہونا سہنا آنے والے زمانے میں پایا جائے۔ مثلاً میں لاہور جاؤں گا۔ وہ بازار جائیں گے۔ وغیرہ
4۔ فعل مضارع: وہ فعل جس میں کسی کام کا کرنا ، ہونا یا سہنا  حال اور مستقبل دونوں میں پایا جائے۔ مثلاً      عمار چائے پیے۔ وہ ہنسے۔ وہ لائے.
فعل ماضی کی اقسام
فعل ماضی کی مندرجہ ذیل اقسام ہیں؛
1۔ ماضی مطلق: وہ فعل جس میں کسی کام کا کرنا ، ہونا یا سہنا  مطلق گزرے زمانے میں پایا جائے۔ مثلاً     عمار نے چائے پی۔ وہ رویا۔ وہ ہنسے۔
2۔ماضی قریب: وہ فعل جس میں کسی کام کا کرنا ، ہونا یا سہنا  قریب کے گزرے زمانے میں پایا جائے۔ مثلاً  اُس نے چائے پی ہے۔ وہ ہنسا ہے۔
3۔ماضی بعید: وہ فعل جس میں کسی کام کا کرنا ، ہونا یا سہنا   دور کے گزرے زمانے میں پایا جائے۔ مثلاً     عمار نے چائے پی تھی۔ وہ ہنسا تھا۔
4۔ ماضی استمراری: وہ فعل جس میں کسی کام کا کرنا ، ہونا یا سہنا  گزرے زمانے میں جاری حالت میں (بار بار ہونا)  پایا جائے۔ مثلاً      عمار  چائے پیتا تھا۔ وہ ہنستا تھا۔ بارش ہو رہی تھی۔
5۔ ماضی شکیّہ:وہ فعل جس میں کسی کام کا کرنا ، ہونا یا سہنا  گزرے زمانے میں شک میں پایا جائے۔ مثلاً     عمار نے چائے پی ہو گی۔ وہ ہنسا ہو گا۔
6۔ماضی تمنّائی: وہ فعل جس میں کسی کام کے کرنے ، ہونے یا سہنے کی تمنا  گزرے زمانے میں پائی جائے۔ مثلاً     عمار چائے پیتا۔وہ ہنستا۔
فعل کی حالتیں
فعل کی درج ذیل حالتیں ہیں؛
1۔فعل مثبت:وہ فعل جس میں کسی کام کا کرنا، ہونا یا سہنا ثابت ہو۔ مثلاً  لایا ہے۔ سوئے گا۔ جاتا ہے۔
2۔ فعل منفی: وہ فعل جس میں کسی کام کا نہ کرنا،نہ  ہونا یا نہ سہنا ثابت ہو۔ مثلاً نہیں لایا ہے۔ نہیں سوئے گا۔  نہیں جاتا  ہے۔
3۔ فعل امر:وہ فعل جس میں کسی کام کے کرنے یا ہونے کا حکم پایا جائے۔ مثلاً  سبق پڑھ۔ کتاب کھول۔ اُٹھ جا۔ پانی پی۔
4۔ فعل نہی:وہ فعل جس میں کسی کام کے کرنے یا ہونے سے روکا جائے۔ مثلاً  سبق مت پڑھ۔ کتاب نہ کھول۔ مت اٹھ۔ پانی نہ پی۔
فعل منفی اور فعل نہی میں فرق
فعل منفی سے کسی کام کا نہ کرنا یا نہ ہونا ظاہر ہوتا ہے جبکہ فعل نہی میں کام کرنے یا ہونے سے منع کیا جاتا ہے۔

اتوار، 29 نومبر، 2015

قواعد اردو-14

5 comments
اسم استفہام کی اقسام
اسم استفہام کی 3 اقسام یہ ہیں؛
1۔ استفہام اقراری: جہاں سوال کا اقراری جواب جملے ہی میں موجود ہو۔ جیسے یہ اسکی بیوقوفی نہیں تو اور کیا ہے؟ یہ میری نادانی کی وجہ تھی، ان جملوں میں "بیوقوفی اور نادانی" استفہام اقراری ہیں۔
2۔ استفہام استخباری: نا معلوم کے بارے میں سوال استفہام استخباری کہلاتا ہے۔ مثلاًتمھاری مٹھی میں کیا ہے؟ آخر وہ کون تھا؟ یہاں "کیا اور کون" استفہام استخباری ہیں۔
3۔ استفہام انکاری: جب جملے میں کسی بات سے انکار کیا جائے۔ مثلاً میں نے یوں کب کہا تھا؟  یہاں "کب" انکار کے معنوں میں استفہام انکاری ہے۔
اسم فاعل کی اقسام
اسم فاعل  کی اقسام درج ذیل ہیں؛
1۔ اسم فاعل قیاسی: وہ اسم فاعل جو کسی خاص  قاعدے  کے تحت بنا  ہو۔ جیسے لکھنے والا۔ گانے والا۔ رونے والی۔ کھیلنے والے وغیرہ
2۔ اسم فاعل سماعی: وہ اسم فاعل جو کسی خاص قاعدے کے بغیر بنا ہو۔ مثلاً پرندہ۔ مالدار۔ تیراک۔ پاسبان۔  محسن۔ خدمت گار۔ ڈاکیا۔ سپیرا وغیرہ
3۔ اسم فاعل مفرد:وہ  اسم فاعل جو لفظ واحد کی صورت میں ہو مگر ایک سے زیادہ کے معنی دے۔ جیسے چور۔ سپاہی۔  ڈاکو وغیرہ
4۔اسم فاعل مرکب:یہ اسم فاعل ایک سے زیادہ الفاظ پر مشتمل ہوتا ہے۔  جیسے جیب کترا۔ راہ نما۔ بازی گر  وغیرہ
فاعل اور اسم فاعل کا فرق
کام کرنے والے والے کو فاعل کہتے ہیں۔ فاعل اسم مشتق نہیں ہوتا۔ فاعل کو بنایا نہیں جاتا نیز فاعل کی جگہ اسم فاعل استعمال کیا جا سکتا ہے۔  جیسے علی نے کتاب پڑھی۔ سپاہی نے رکنے کا اشارہ کیا۔ ان جملوں میں علی اور سپاہی فاعل ہیں۔
فعل کی نسبت سے کام کرنے والے کو اسم فاعل کہتے ہیں۔ اسم فاعل  مشتق ہوتا ہے اور مصدر سے بنتا ہے۔ یہ اسم مشتق ہوتا ہے اور اسم فاعل کی جگہ فاعل استعمال نہیں کیا جا سکتا۔  جیسے کھانے والا۔ پڑھنے والا۔ مارنے والا۔ سینے والا۔
اسم مفعول کی اقسام
اسم مفعول کی 2 اقسام یہ ہیں؛
1۔ اسم مفعول قیاسی: وہ اسم مفعول جوکسی مقررہ  قاعدے سے بنایا جائے۔ بنانے کا قاعدہ یہ ہے کہ ماضی مطلق کے بعد "ہوا" کا لفظ لگا دیتے ہیں۔ جیسے کھایا سے کھایا ہوا۔  سنا سے سنا ہوا۔ پڑھایا سے پڑھایا ہوا۔
2۔ اسم مفعول سماعی: وہ اسم مفعول جو کسی خاص قاعدے کے مطابق نہ بنایا گیا ہو  بلکہ اہلِ زبان کے طریقےپر استعمال ہوتا ہو۔ جیسے دُم کٹا۔ بیچارہ۔ کشتہ۔ مسکین۔ مظلوم ۔ لاڈلا ۔ دکھی وغیرہ
مفعول اور اسم مفعول کا فرق
جس پر کام کیا جائے اسے مفعول کہتے ہیں۔ مفعول اسم مشتق نہیں ہوتا۔ مفعول بنایا نہیں جاتا نیز فعل کی نسبت سے اسے مفعول کہا جاتا ہے۔ جیسے علی نے کتاب پڑھی۔ سپاہی نے مجھے رکنے کا اشارہ کیا ۔ ان جملوں میں" کتاب "اور"مجھے"  مفعول ہیں۔
اسم مفعول ہمیشہ اسم مشتق ہوتا ہے اور مصدر سے بنتا ہے یا اس کے ساتھ علامت مفعولی لگائی جاتی ہے۔ یہ مفعول کی جگہ لے سکتا ہے۔ اسم مفعول جملے کے اندر یا باہر اسم مفعول ہی رہتا ہے۔  جیسے پڑھنا سے پڑھا جانے والا۔ لکھنا سے لکھا جانے والا وغیرہ
جنس کے لحاظ سے اسم کی اقسام (تذکیر و تانیث)
          جنس کے لحاظ سے اسم کی درج ذیل اقسام ہیں؛

مذکر: ایسا اسم جو نر کے لیے بولا جائے۔ مثلاً مرد۔ باپ۔ بادشاہ۔ چڑا۔ مرغا وغیرہ

مؤنث: ایسا اسم جو مادہ کے لیے بولا جائے۔ مثلاً عورت۔ ماں۔ ملکہ۔ چڑیا۔ مرغی وغیرہ

تذکیر و تانیث حقیقی: جانداروں ناموں کے نر اور مادہ کو تذکیر و تانیث حقیقی کہتے ہیں۔ جیسے مرد۔ گھوڑا۔ ملکہ۔ شیرنی وغیرہ

تذکیر و تانیث غیر حقیقی: بے جان چیزوں میں  بولنے، لکھنے اور پڑھنے میں مذکر یا مؤنث کی تخصیص  تذکیر و تانیث غیر حقیقی کہلاتی ہے۔

 جیسے آنکھ۔ انگلی۔ پنڈلی۔ بارش وغیرہ مؤنث لکھے جاتے ہیں جبکہ گھر۔ مکان۔ درخت۔ سورج وغیرہ مذکر لکھے جاتے ہیں۔

جمعہ، 27 نومبر، 2015

قواعد اردو-13

3 comments
تعداد کے لحاظ سے اسم کی اقسام
اسم عدد: وہ اسم جس سے کسی ذات یا چیز کی تعداد ظاہر ہوتی ہو۔  جیسے وہ 2 قلم ہیں۔ تسبیح میں 100 دانے ہیں۔ ہماری جماعت میں 22 طلباء ہیں۔
اسم عدد کی اقسام
            اسم عدد کی دو اقسام ہیں؛
1۔ عدد  معین: جس اسم عدد سے اشیاء کی تعداد کا صحیح تعین ہو سکے۔ مثلاً  چار۔ تین۔ پچاس۔ سو۔ ہزار۔ سوا۔ آدھا۔ پونا لاکھ  وغیرہ
2۔ عدد غیر معین: جس اسم عدد سے اشیاء کی تعداد کا درست تعین نہ ہو سکے۔ جیسے کئی۔ چند۔ بہت۔ تھوڑا۔ متعدد۔ وغیرہ
تعداد یا گنتی کے لحاظ سے اسم عدد کی حالتیں
تعداد یا گنتی کے لحاظ سے اسم کی دو حالتیں ہیں۔
1۔  واحد: وہ  لفظ جو صرف ایک شخص ۔ جگہ یا چیز کے لیے استعمال ہو  ۔مثلاً لڑکا۔ تحفہ۔ آنکھ۔ دیوار۔ مسجد۔ وغیرہ
2۔جمع: وہ لفظ جو ایک سے زیادہ چیزوں،جگہوں یا اشخاص کے لیے بولا جائے۔ مثلاً بچے۔ تحفے۔ آنکھیں۔ دیواریں۔ مساجد وغیرہ
جمع کی صورتیں
جمع کی درج ذیل صورتیں ہیں؛
جمع سالم: واحد سے جمع بناتے وقت اگر واحد کے حروف میں کسی قسم کی تبدیلی نہ ہو تو اسے جمع سالم کہتے ہیں۔ مثلاً حاضر سے حاضرین۔ احسان سے احسانات۔ انعام سے انعامات وغیرہ
جمع مکسر:
اگر واحد سے جمع بناتے وقت واحد کی صورت بدل جائے تو اسے جمع مکسر کہتے ہیں۔ جیسے شعر سے اشعار۔ امام سے ائمہ۔ اُم سے اُمّہات۔ وعدہ سے وعود وغیرہ
تثنیہ:
عربی الفاظ میں  دو چیزوں کے لیے جمع کی ایک الگ صورت استعمال کی جاتی ہے اسے تثنیہ کہتے ہیں۔تثنیہ کا مطلب 2 ہے۔ جیسے سید سے سیدین۔  دار سے دارین۔ عید سے عیدین۔ والد سے والدین ۔قطب سے قطبین۔
جمع الجمع:
کسی واحد سے جمع کی جمع کو جمع الجمع کہتے ہیں۔ جیسے اکبر سے اکابر اور اکابر سے اکابرین۔ دوا سے ادویہ اور ادویہ سے ادویات۔ لقب سے القاب اور پھر القاب سے القابات وغیرہ
اسم جمع اور جمع میں فرق
اسم جمع میں لفظ تو واحد ہوتا ہے مگر معنی مجموعے یا جمع کےدیتا ہے۔  جیسے فوج۔ لشکر۔ جماعت وغیرہ   جبکہ
جمع(عدد)  میں لفظ اور معنی دونوں جمع کا مفہوم دیتے ہیں۔ جیسے کتاب سے کتابیں۔ کرسی سے کرسیاں وغیرہ

قواعد اردو-12

0 comments
صفت عددی  اور صفت مقداری کی اقسام
صفت عددی کی اقسام
صفت عددی کی دو اقسام ہیں؛
1۔ صفت عددی  معین: جس میں اشیاء کی تعداد کا صحیح تعین ہو سکے۔ مثلاً  چار۔ تین۔ پچاس۔ سو۔ ہزار۔ سوا۔ آدھا۔ پونا لاکھ  وغیرہ
2۔ صفت عددی غیر معین: جس میں اشیاء کی تعداد کا درست تعین نا ہو سکے۔ جیسے کئی۔ چند۔ بہت۔ تھوڑا۔ کچھ۔وغیرہ
معدود: صفت عددی کے موصوف کو ”معدود“ کہتے ہیں۔
صفت عددی  معین کی اقسام
صفت عددی معین کی پانچ اقسام ہیں؛
1۔ اعداد ذاتی: وہ اعداد جو تعداد کو ظاہر کریں۔ مثلاً چار۔ چھ۔ سو۔ ہزار۔ لاکھ۔ کروڑ وغیرہ
2۔ اعداد ترتیبی: وہ اعداد جن میں تعداد کے ساتھ ساتھ ترتیب اور درجہ بھی معلوم ہو۔ مثلاً  پہلا۔ دوسرا۔ تیسرا۔
 دسواں ۔ گیارہواں، پچاسواں۔ ہزارواں۔
وغیرہ
3۔ اعداد ضعفی: وہ اعداد جو یہ ظاہر کریں کہ چیز کتنے گنا ہے۔ مثلاً دگنا۔ تگنا۔ چو گنا۔ دونی، تگنی۔ وغیرہ
4۔ اعداد کسری: وہ اعداد جو کسی مکمل عدد کا حصہ ہوں۔ جیسے آدھا۔ سوا۔ پونا۔ تہائی ڈیڑھ وغیرہ
5۔ اعداد استغراقی: وہ اعداد جو اپنے معدود کے تمام پہلوؤں پر حاوی ہوں۔ جیسے سب۔ تمام۔  سب کچھ وغیرہ
صفت مقداری کی اقسام
صفت مقداری کی دو اقسام ہیں؛

1۔ صفت مقداری معین: جس میں اشیاء کی معین مقدار معلوم ہو۔ جیسے سیر بھر۔ تولہ بھر۔ ماشہ بھر وغیرہ

2۔ صفت مقداری غیر معین: جس میں اشیاء کی مقدار کا تعین نا ہو سکے۔ جیسے تھوڑا سا۔ کافی۔ بہت سی۔ کچھ وغیرہ

اپنی رائے دیجیئے

0 comments
اَلسّلامُ علیکُم !
             قارئین سے ایک التماس ہے کہ  شفقت فرماتے ہوئے بلاگ کے بارے اپنی قیمتی آراء سے ضرور آگاہ کریں۔ اغلاط کی نشاندہی کریں۔ اپنی پسندیدگی اور نا پسندیدگی کا کھل کر اظہار کریں۔ میں آپ کی آراء کا منتظر ہوں۔ شکریہ 

قواعد اردو-11

0 comments
اسم صفت کی اقسام
اسم صفت کی 5 اقسام ہیں؛
1۔ صفت ذاتی (صفت اصلی): وہ صفت جو کسی اسم کی ذاتی حالت میں ہمیشہ موجود ہو۔ مثلاً تیز دھوپ میں گرمی ہوتی ہے۔ موسم سرما میں سردی ہوتی ہے۔ آگ جلا دیتی ہے۔ برف ٹھنڈی ہوتی ہے ۔ وغیرہ
2۔ صفت نسبتی: وہ صفت جس سے کسی کا تعلق یا لگاؤ ظاہر ہو۔ جیسے حفیظ جالندھری۔ پاکستانی کھلاڑی۔ ملتانی حلوہ۔ احمد فاروقی۔ سندھی اجرک۔ ان تراکیب میں جالندھری، پاکستانی، ملتانی، فاروقی، سندھی صفت نسبتی ہیں،  ان میں پائی جانے والی "ی" کو یائے نسبتی کہتے ہیں۔
3۔ صفت عددی: وہ صفت جو کسی اسم  کی  تعداد،ترتیب یا درجے کو ظاہر کرے ۔ جیسے۔ پہلا۔ دو۔ چار۔دوسرا۔پہلی۔ اول۔ اولین۔ چوتھائی وغیرہ
4۔ صفت  مقداری: وہ صفت جو کسی اسم کی مقدار(پیمائش/ترتیب)  کو ظاہر کرے۔ مثلاًتھوڑا۔ بہت۔ کتنا۔ تولہ بھر۔ کافی ۔ خاصہ۔ بے شمار وغیرہ
5۔صفت ضمیری: ایسے الفاظ جو صفت اور ضمیر دونوں معنوں میں استعمال ہوں، صفت ضمیری کہلاتے ہیں۔ مثلاً چند۔ فلاں۔ کونسا۔ سب۔ بعض۔ ہر۔ کیسا۔ یہ۔ جیسا وغیرہ
درجات صفت(صفت ذاتی کے درجے)
        صفت ذاتی کے 3 درجات ہیں؛
1۔ تفضیل نفسی(صفت نفسی) :کسی اسم کی ذاتی صفت (جس کا کسی اور سے مقابلہ یا موازنہ نہ کیا جائے) ہے۔ جیسے ماجد نیک لڑکا ہے۔ علی شرارتی ہے۔ گائے خوبصورت ہے۔ درخت اونچا ہے۔ وغیرہ
2۔ تفضیل بعض (صفت بعض): جب کسی صفت کا دو یا دو سے زیادہ میں مقابلہ یا موازنہ کیا جائے۔ مثلاً علی ماجد سے زیادہ ذہین ہے۔ ثانیہ سلمیٰ سے زیادہ سست ہے۔ ناریل کا درخت کھجور سے اونچا ہوتا ہے۔ وغیرہ
3۔ تفضیل کل(صفت کل): جبکسی ایک صفت کا (اُسی جنس کے) سب سے مقابلہ یا موازنہ کیا جائے۔ مثلاً نشانِ حیدر سب سے بڑا فوجی اعزاز ہے۔ علامہ اقبال سب سے بڑے شاعر ہیں ۔ وہ دنیا کا سب سے لمبا آدمی ہے۔وغیرہ

بدھ، 25 نومبر، 2015

قواعد اردو-10

0 comments
اسم ذات کی اقسام
اسم ذات کی 5 اقسام یہ ہیں؛
1۔ اسم تصغیر یا اسم مصغر: وہ اسم ذات جو کسی اسم کی چھوٹائی یا چھوٹا پن ظاہر کرے۔  مثلاً صندوق سے صندوقچی۔  بچہ سے بچونگڑا۔ پہاڑ سے پہاڑی۔ باغ سے باغیچہ۔ پگڑ سے پگڑی ۔  وغیرہ
2۔ اسم تکبیر یا اسم  مکبّر: وہ اسم ذات جو کسی اسم کی بڑائی یا بڑا پن ظاہر کرے۔  مثلاً شاہراہ۔ گٹھڑ۔  مہاراجہ۔ گھڑیال۔ بتنگڑ وغیرہ۔
3۔اسم آلہ: وہ اسم ذات جس میں اوزار یا ہتھیار کے معنی پائے جائیں۔ مثلاً چھری۔تلوار۔ آری۔قلم۔تیر۔مقراض ۔وغیرہ
4۔ اسم جمع: وہ اسم جو ایک جنس/قسم کی بہت سی چیزوں کے مجموعے کے لیے بولا جائے۔  اگرچہ لفظ واحد ہو۔ مثلاً لشکر۔ فوج۔ ریوڑ۔ ہجوم۔ ٹیم۔ ٹڈی دَل۔جماعت۔ وغیرہ
5۔ اسم ظرف:
وہ اسم جس میں وقت یا جگہ کے معنی پائے جائیں۔ جیسے باغ۔ مکان۔ اسکول۔ شام۔ دوپہر۔ رات۔ وغیرہ
اسم ظرف کی اقسام:
اسم ظرف کی دو اقسام ہیں؛
1
۔ظرف زماں: جس اسم ظرف میں وقت یا زمانہ کے معنی موجود ہوں ۔ مثلاً صبح۔ شام۔ کل۔ پرسوں۔ آج ۔ مہینہ۔ ہفتہ۔ صدی ۔ وغیرہ
2۔ظرف مکاں: جس اسم ظرف میں جگہ یا مقام کے معنی پائے جائیں۔ مثلاً اسکول۔ باغ۔ میدان۔ وغیرہ
اسم موصوف: جس اسم کی صفت بیان کی جائے وہ اسم موصوف کہلاتا ہے۔ جیسے نیک آدمی۔ شرارتی بچہ۔ کالا بکرا۔ بڑی نہر۔ یہاں نیک۔ شرارتی، کالا اور بڑی اسم صفت اور آدمی، بچہ، بکرا اور نہر اسم موصوف ہیں۔

منگل، 24 نومبر، 2015

قواعد اردو-9

2 comments
اسم نکرہ کی اقسام
اسم نکرہ کی  اقسام درج ذیل  ہیں؛
1۔ اسم ذات: وہ اسم ہے جس سے کسی چیز کی حقیقت دوسری چیزوں سے الگ سمجھی  اور پہچانی جائے۔ جیسے   آگ۔ پانی۔ خاک۔ کبوتر۔ انسان۔ مسجد۔ مندر وغیرہ
2۔ اسم صوت: وہ اسم جس میں کسی جاندار یا بے جان کی آواز کے معنی پائے جائیں۔ مثلاً  ٹُک ٹُک۔ میاؤں میاؤں۔ چھم چھم۔ چوں چوں وغیرہ
3۔ اسم صفت: جو اسم کسی چیز ، شخص یا جگہ کی صفت(اچھی یا بری)  ظاہر کرے۔ جیسے نیک۔ سیاہ۔ کڑوا۔ اچھا وغیرہ

قواعد اردو-8

0 comments
اسم ضمیر کی اقسام
نوٹ: جس اسم کی جگہ  ضمیر استعمال  کیا جائے اسے مرجع کہتے ہیں مثلاً حیدر اچھا آدمی ہے، وہ ہمیشہ سچ بولتا ہے۔ اس جملے میں ”حیدر“ مرجع   اور    ” وہ “ ضمیر ہے۔
اسم ضمیر کی درج ذیل 7 اقسام ہیں؛
1۔ ضمیر شخصی: وہ ضمیر جو تشخص کے لیے بولی جائے۔ اسکی 3 صورتیں ہیں؛
(1)ضمیر متکلم: جو ضمیر بولنے والا اپنے لیے استعمال کرے۔مثلاً  میں۔ میرا۔ مجھے۔ ہم۔ ہمارا۔ ہمیں وغیرہ
(2)ضمیر حاضر یا مخاطب: جو ضمیر مخاطب یا سامنے موجود شخص کیلیے استعمال کی جائے۔مثلاً تو۔ تم ۔ آپ۔ تمھارا۔ تمھیں وغیرہ
(3)ضمیر غائب: وہ ضمیر جو غائب یا غیر موجود شخص کے بارے میں استعمال ہو۔مثلاً وہ۔ اس۔ ان۔ انہیں۔ انہوں   وغیرہ
2۔ضمیر  اشارہ: جو ضمیر کسی شخص یا چیز کی طرف اشارہ کرے۔ یہ ۔ وہ۔ یہی۔ وہی ۔اسی وغیرہ
3۔ضمیر موصولہ: وہ ضمیر ہے کہ جب تک اس کے ساتھ پورا جملہ نہ لگایا جائے  مطلب سمجھ نہیں آتا۔ جیسے   "جو محنت  کرتا ہے  کامیاب ہوتا ہے۔"  اس میں "جو" ضمیر موصولہ اور  "کامیاب ہوتا ہے" جواب صلہ ہے۔
4۔ ضمیر استفہامیہ: وہ ضمیر ہے جو پوچھنے(سوال) کیلیے استعمال کی جاتی ہے۔ مثلاً کون۔ کیوں۔ کیا۔ کب ۔ کیسے۔ کہاں۔ کدھر۔ کونسا وغیرہ
5۔ضمیر تنکیری: یہ ضمیر غیر معین اشخاص کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ جیسے کچھ۔ کوئی۔ کسی وغیرہ
6۔ضمیر تاکیدی: کسی شخصی ضمیر کی نسبت تاکید کے لیے استعمال ہوتی ہے۔  جیسے  یہ۔ آپ۔ اپنی۔ اپنا وغیرہ
7۔ ضمیر صفتی: جس میں ضمیر کی صفت ساتھ واقع ہو۔ جیسے مجھ حقیر۔ اس عقلمند۔  (جتنا۔ کتنا۔ ایسا۔ ویسا۔ بھی ضمائر صفتی ہیں)
اسم ضمیر کی حالتیں
اسم ضمیر 4 حالتوں میں استعمال کیا جاتا ہے؛
(1)ضمیر فاعلی: جب ضمیر فاعل کی جگہ استعمال کی جائے۔ وہ۔ تم۔ میں ۔ ان ۔ اس ۔ آپ۔ ہم۔
(2)ضمیر مفعولی: جب ضمیر مفعول کی جگہ استعمال کی جائے۔ اسے۔ انہیں۔ مجھے۔ ہمیں۔ تمھیں ۔آپ کو۔ تجھے
(3)ضمیر اضافی: جب ضمیر تعلق ظاہر کرے۔ میرا۔ اس کا۔ تمھارا۔ آپ کا۔ ہمارا۔ ان کا
(4)ضمیر مجروری: جب ضمیر مجرور کی جگہ آئے۔ اس پر۔ ان پر  ۔ مجھ پر۔ ہم پر
اسم اشارہ کی اقسام
اسم اشارہ کی 2 اقسام درج ذیل ہیں؛
1۔ اسم اشارہ قریب: وہ اسم اشارہ جو قریب کی کسی چیز، جگہ یا شخص کی طرف اشارہ کرے۔  یہ۔ اِس۔ اِن ۔
2۔اسم اشارہ بعید: وہ اسم جو دور کی کسی چیز، جگہ یا شخص کی طرف اشارہ کرے۔ وہ۔ اُس۔ اُن
مشار الیہ: جس شخص ، جگہ یا چیز کی طرف اشارہ ہو اُسے مشار الیہ کہتے ہیں، مشار الیہ اگرچہ اسم نکرہ ہوتا ہے مگر اسم اشارہ کی وجہ سے اسم معرفہ بن جاتا ہے۔
اسم موصول: وہ اسم کہ جب تک اس کے ساتھ کوئی جملہ نہ ملایا جائے مطلب سمجھ نہیں آتا۔  مثلاً جو۔ جس۔ جو کچھ۔ جونسا۔ جتنی۔ جیسا۔  وغیرہ
نوٹ: اسم موصول والے جملے 3 حصوں پر مشتمل ہوتے ہیں، مثلاً جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔1۔  اس جملے میں جیسا  اسم موصول ہے۔ 2۔ کرو گے  صلہ ہے۔  3۔ بھرو گے جواب صلہ ہے۔

قواعد اردو-7

1 comments
اسم کی اقسام (بلحاظ  معنی /استعمال)
معنی اوراستعمال کے لحاظ سے اسم کی دو اقسام ہیں؛
1۔ اسم معرفہ(اسم خاص): کسی شخص، جگہ یا چیز کا خاص (مخصوص)نام اسم معرفہ کہلاتا ہے۔ یا
  
 کسی خاص شخص، جگہ یا چیز کا نام اسم معرفہ کہلاتا ہے۔ جیسے لاہور۔اسلم۔ پاکستان۔ حجرِ اسود وغیرہ
2۔اسم نکرہ(اسم عام): کسی عام شخص، جگہ یا چیز کا نام اسم نکرہ کہلاتا ہے۔ یا
  
کسی شخص، جگہ یا چیز کا عام نام اسم نکرہ کہلاتا ہے۔  جیسے گھر۔ شہر۔ کتاب ۔ مرد۔ لڑکی۔ وغیرہ
اسم معرفہ کی اقسام
اسم معرفہ کی 4 اقسام ہیں؛
1۔ اسم عَلم: وہ اسم جو کسی خاص شخص، جگہ یا چیز کے لیے بولا جائے۔  جیسے سورج۔قائدِاعظم۔ لاہور۔ سعید۔ سندھ۔  وغیرہ
2۔اسم ضمیر: وہ اسم جو کسی شخص ، جگہ یا چیز  کے نام کی جگہ استعمال کیا  جائے۔ جیسے اس۔تمھارا۔   میرا۔ ہم۔ وغیرہ
3۔ اسم اشارہ: وہ اسم جو کسی شخص ، جگہ یا چیز کی طرف اشارہ کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔مثلاً  یہ کتاب۔ وہ کبوتر۔ یہاں "یہ" اور "وہ" اسم اشارہ ہیں۔
4۔اسم موصول: وہ اسم ہے جو دو جملوں کو ملاتا ہے جس سے مطلب سمجھ آ جاتا ہے۔ مثلاً جو۔ جس ۔ جیسے ۔وغیرہ
اسم عَلَم کی اقسام
اسم علم کی 5 اقسام ہیں؛
1۔ خطاب: حکومت یا قوم کی طرف سے کسی اعلیٰ خدمت پر دیا گیا تعظیمی یا اعزازی نام خطاب کہلاتا ہے۔ مثلاً  نشانِ حیدر۔شمس العلماء  تمغۂ شجاعت۔ خان بہادر۔قائدِ اعظم وغیرہ۔
2۔لقب:  کسی صفت یا خوبی کی بنا پر مشہور  نام لقب کہلاتا ہے۔ مثلاً حضرت ابراہیم خلیل اللہ۔ حضرت موسیٰ کلیم اللہ۔ حضرت علی اسد اللہ  داتا گنج بخش شکر۔حضرت خالد بن ولید سیف اللہ وغیرہ
3۔تخلّص:  وہ مختصر نام جو شاعر اپنی منفرد شناخت کےلیے شاعری میں استعمال کرتے ہیں۔تخلص پر علامت تخلص”  ؔ “لگائی جاتی ہے۔ جیسےمرزا اسداللہ  غالبؔ۔ علامہ محمداقبالؔ۔ مرزا داغؔ دہلوی۔ میرتقی میرؔ۔ الطاف حسین حاؔلی وغیرہ
4۔کنیّت: وہ نام جو نسب یا رشتے کے تعلق سے پکارا جائے جیسے۔ ابو طالب۔ ابُو تراب۔ امِ سلمہ۔ اِبنِ آدم وغیرہ
5۔ عُرف: وہ نام جو پیار، نفرت، محبت یا حقارت کی وجہ  سے پکارا جائے۔  جیسے رشید سے شیدا۔ ببلی۔ گاما۔ جیلا وغیرہ

پیر، 23 نومبر، 2015

قواعد اردو-6

0 comments
اسم کی اقسام (بلحاظ بناوٹ)
بناوٹ کے لحاظ سے اسم کی 3 اقسام ہیں۔
1۔ اسم جامد: ایسا اسم جو نہ خود کسی کلمہ سے بنا ہو اور نہ اس سے کوئی دوسر ا کلمہ بن سکے جیسے کرسی۔ میز۔ لکڑی۔ پانی۔ آگ۔  وغیرہ
2۔ اسم مصدر: ایسا  اسم جس میں کسی کام کا کرنا ، ہونا یا سہنا ظاہر ہو، مصدر سے اور کلمے بنائے جا سکتے ہیں۔ مثلاً کھانا۔ پینا۔ سونا۔ جاگنا۔ رونا۔ دھونا۔ آنا ۔ جانا  وغیرہ۔ "نا" مصدر کی علامت ہے۔
3۔اسم مشتق: ایسا اسم جو مصدر سے بنا ہو جیسے لکھنا سے لکھائی۔ پڑھنا سے پڑھائی ۔ پڑھنے والا۔ پڑھا ہوا  ۔وغیرہ

اسم مصدر کی اقسام (بلحاظ معنی)
اسم مصدر کی معنی کے لحاظ سے 4 اقسام ہیں؛
1۔ مصدر مفرد(اصلی مصدر): وہ اسم جو شروع سے ہی مصدر کے معنی دیتا ہو۔ مثلاً آنا۔ جانا۔ جاگنا۔ سونا۔ کھانا۔ پینا وغیرہ
2۔ مصدر مرکب(جعلی مصدر): وہ اسم ہے جو کسی لفظ کو مصدر کے شروع میں لگا کر مصدر بنا لیا جائے۔ مثلاً بہک جانا۔ سچ بولنا۔ کلمہ پڑھنا۔  قے آنا وغیرہ
3۔ مصدر لازم: وہ مصدر جس سے بنا یا گیا فعل صرف فاعل کو چاہے اور جملہ فعل اور فاعل سے مکمل ہو جائے۔ جیسے  بچہ گیا۔  میں سو  گیا۔  زید تیز دوڑا  ۔ وغیرہ
4۔ مصدر متعدی: وہ مصدر جس سے بنایا گیا فعل فاعل اور مفعول دونوں  کو  چاہے۔ مثلاً عورت نے آم کھایا۔ میں نے کتاب پڑھی۔ اس نے خط لکھا ۔ وغیرہ

مصدر متعدی کی اقسام(بلحاظ مفعول)
مفعول کے لحاظ سے متعدی مصادر کی درج ذیل اقسام ہیں؛
1۔متعدی بہ یک  مفعول:ایسا مصدر متعدی جو صرف ایک مفعول کو چاہے۔ مثلاً  اکبر نے چائے پی۔ اس نے سیب کاٹا۔
2۔متعدی بہ دو مفعول: ایسا مصدر متعدی جو جملے کی تکمیل کے لیے دو مفعول چاہے۔ مثلاً زید نے سجاد کو پھول دیا۔ اس نے علی کے لیے سیب کاٹا۔  یہاں دو مفعول ”سجاد ۔پھو ل“ اور ”علی۔سیب“ ہیں۔
3۔متعدی بہ سہ مفعول:ایسا مصدر جو فعل کی تکمیل کے لیے تین مفعول چاہے۔ مثلاًاکبر نے علی کو سلیم سے دوات لے کر دی۔ یہاں تین مفعول ”علی“،”سلیم“اور”دوات“ ہیں۔

مصدر متعدی کی اقسام(بلحاظ بناوٹ)
بناوٹ کے لحاظ سے متعدی مصادر کی 3 اقسام یہ ہیں؛
1۔ متعدّی الاصل:ایسے مصادر جو اصل میں متعدّی ہی وضع کیے گئے ہوں۔ مثلاً لکھنا۔ پڑھنا۔ کھانا۔ پینا۔  وغیرہ (انہیں متعدّی بنفسہٖ بھی کیا جاتا ہے)
2۔ مصدر متعدی بالواسطہ(مصدر لازم سے مصدر متعدی ):مصدر لازم سےبنائے گئے  مصدر متعدی کو  مصدر  متعدی بالواسطہ کہتے ہیں۔ مثلاً سننا سے سنانا۔ ڈرنا سے ڈرانا۔ رکنا سے روکنا۔ جاگنا سے جگانا۔ رونا سے رلانا۔ جلنا سے جلانا۔ وغیرہ
3۔متعدّی المتعدّی: جو مصدر متعدی  سے متعدی بنائے جائیں، انہیں مصدر متعدی المتعدی کیا جاتا ہے۔ جیسے۔ لکھنا سے لکھانا۔ پڑھنا سے پڑھانا ۔ دیکھنا سے دکھانا وغیرہ

بلاگ

موضوعات

اردو (29) urdu (25) قواعد (23) urdu grammar (21) grammar (13) صرف (13) صرف و نحو (9) اسم (8) فاعل (5) مفعول (5) حرف (4) فعل (4) کلام (4) گرامر (4) استفہام (3) اصطلاحاتِ زبان (3) لازم (3) مرکب (3) اسم ذات (2) اسم ذات، اجزائے کلام (2) اسم صفت (2) اسم ضمیر (2) اشارہ (2) تانیث (2) تخلص (2) تذکیر (2) تلفظ (2) تمیز (2) جمع (2) جملہ (2) حرف صحیح (2) حرف علت (2) حرکت (2) ذاتی (2) صفت (2) صوت (2) عددی (2) عطف (2) علامات (2) علامت (2) علم (2) غیر معین (2) فعل ناقص (2) مؤنث (2) متعدی (2) مجہول (2) مذکر (2) معروف (2) معین (2) مفعولی (2) موصول (2) نحو (2) نکرہ (2) کلمہ (2) کیفیت (2) Consonant (1) Vowel (1) آراء (1) آغا شورش کاشمیری (1) آلہ (1) آواز (1) اجزاء (1) ادغام (1) استخباری (1) استغراقی (1) استفہامیہ (1) اسم جامد (1) اسم عدد (1) اسم مشتق (1) اسم مصدر (1) اسم مفعول (1) اسمیہ (1) اشباع (1) اصطلاحی (1) اضافی (1) اعداد (1) اعراب (1) اقتباس (1) اقراری (1) الخ (1) الفاظ (1) امالہ (1) امدادی (1) امر (1) انشائیہ (1) انکاری (1) ایجاب (1) بیان (1) بیش (1) تاسف (1) تام (1) تثنیہ (1) تخصیص (1) ترتیبی (1) ترک (1) تشبیہ (1) تشدید (1) تصغیر (1) تعجب (1) تعداد (1) تفضیل بعض (1) تفضیل نفسی (1) تفضیل کل (1) تمنائی (1) تنوین (1) تنکیری (1) توصیفی (1) تکبیر (1) جار (1) جزم (1) جمع الجمع (1) جمع سالم (1) جمع مکسر (1) جنس (1) حاشیہ (1) حاصل مصدر (1) حال (1) حالیہ (1) حالیہ معطعفہ (1) حذف (1) حروف (1) حروف تہجی (1) حصر (1) خبریہ (1) خط (1) خطاب (1) درجات صفت (1) رائے (1) ربط (1) رموز اوقاف (1) روزمرہ (1) زبر (1) زیر (1) سالم (1) ساکن (1) سکتہ (1) سکون (1) شخصی (1) شرط (1) شعر (1) شمسی (1) شکیہ (1) صفت عددی (1) صفت مقداری (1) صفتی (1) صفحہ (1) صوتی (1) صوتی نظام (1) صَوتیے (1) ضرب الامثال (1) ضرب المثل (1) ضعفی (1) ضمیری (1) ظرف (1) ظرف زمان (1) ظرف مکان (1) عرف (1) عطف بیان (1) عطفیہ (1) علامت فاعل (1) علامت مفعول (1) عَلم (1) فاعل سماعی (1) فاعل قیاسی (1) فاعلی (1) فجائیہ (1) فعلیہ (1) قسم (1) قصہ (1) قمری (1) لغوی (1) لفظ (1) لقب (1) ماضی (1) متحرک (1) مترادف (1) مثبت (1) مجازی (1) مجروری (1) محاورہ (1) محذوف (1) مد (1) مذکر سالم (1) مرجع (1) مستقبل (1) مشار (1) مصدر (1) مصرع (1) مصغر (1) مصمتہ (1) مصوتہ (1) مضارع (1) مطلق (1) معاوضہ (1) معاون (1) معتدی المتعدی (1) معدولہ (1) معرفہ (1) معطوف (1) معطوف الیہ (1) معطوفہ (1) معنی (1) مفاجات (1) مفرد (1) مقداری (1) مقصورہ (1) ممدوہ (1) منفی (1) موصوف (1) موقوف (1) مونث (1) مکبر (1) مکسر (1) مہمل (1) ندا (1) ندبہ (1) نسبتی (1) نقطہ (1) نہی (1) واحد (1) وقف کامل (1) وقفہ (1) پسند (1) پیش (1) کسری (1) کمی (1) کنیت (1) کو (1) کہاوت (1) گنتی (1) ہجا (1)
محمد عامر. تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *